kitab ghar website logo





Don't Like Unicode ?  Read in Nastaleeq from Image Pages or Download the PDF File

 

Kitaabghar Blog:
Kitaabghar launched a Blog for discussion of urdu books available online on kitaabghar.com or any other website. Readers can also share views and reviews of books of their choice and promote their favourite writers. This is not limited to urdu books.



مہا لکشمی کا پل

 

(کرشن چندر)

 

 


 کیونکہ اس کا ڈھونڈو بیمار تھا اور اسے اپنے آپ کو اور اپنے خاوند کو زندہ رکھنا تھا۔
لیکن ڈھونڈو زندہ نہ رہا اور اب جیونا بائی اکیلی تھی۔ خیریت اس میں تھی کہ وہ بالکل اکیلی تھی اور اب اسے صرف اپنا دھندا کرنا تھا۔ شادی کے دو سال بعد اس کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی لیکن جب وہ جوان ہوئی تو کسی بدمعاش کے ساتھ بھاگ گئی اور اس کا آج تک کسی کو پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں ہے پھر کسی نے بتایا اور پھر بعدمیں بہت سے لوگوں نے بتایا کہ جیونا بائی کی بیٹی فارس روڈ پر چمکیلا بھڑکیلا ریشمی لباس پہنے بیٹھی ہے لیکن جیونا کو یقین نہ آیا ۔ اس نے اپنی ساری زندگی پانچ روپے چار آنے کی دھوتی میں بسر کردی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس کی لڑکی بھی ایسا کرے گی ۔ وہ ایسا نہیں کرے گی ۔ اس کا اسے کبھی خیال نہ آیا تھا۔ وہ کبھی فارس روڈ نہیں گئی کیونکہ اسے اس کا یقین تھا کہ اس کی بیٹی وہاں نہیں ہے۔ بھلا اس کی بیٹی وہاں کیوں جانے لگی۔ یہاں اپنی کھولی میں کیا تھا۔ پانچ روپے چار آنے والی دھوتی تھی۔ باجرے کی روٹی تھی۔ ٹھنڈا پانی تھا۔ سوکھی عزت تھی۔ یہ سب کچھ چھوڑ کر فارس روڈ کیوں جانے لگی۔ اسے تو کوئی بدمعاش اپنی محبت کا سبز باغ دکھا کر لے گیا تھا کیونکہ عورت محبت کے لئے سب کچھ کر گزرتی ہے۔ خود وہ تیس سال پہلے اپنے ڈھونڈو کے لئے اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کے چلی نہیں آئی تھی ہاں جس دن ڈھونڈو مرا اور جب لوگ اس کی لاش جلانے کے لئے لے جانے لگے اور جیونا نے اپنی سیندور کی ڈبیا اپنی بیٹی کی انگیا پر انڈیل دی جو اس نے بڑی مدت سے ڈھونڈو کی نظروں سے چھپا رکھی تھی۔ عین اسی وقت ایک گدرائے ہوئے جسم کی بھاری عورت بڑا چمکیلا لباس پہنے اس سے آگے لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی اور اسے دیکھ کر جیونا کو یقین آگیا کہ جیسے اس کا سب کچھ مر گیا ہے ۔ اس کا پتی اس کی بیٹی، اس کی عزت جیسے وہ زندگی بھر روٹی نہیں غلاظت کھاتی رہی ہے۔ جیسے اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ شروع دن ہی سے کچھ نہیں تھا۔ پیدا ہونے سے پہلے ہی اس سے سب کچھ چھین لیا گیا تھا۔ اسے نہتا، ننگا اور بے عزت کردیا گیا تھا اور جیونا کو اسی ایک لمحے میں احساس ہوا کہ وہ جگہ جہاںاس کا خاوند زندگی بھر کام کرتا رہا اور وہ جگہ جہاں اس کی آنکھ اندھی ہو گئی اور وہ جگہ جہاں اس کی بیٹی اپنی دکان سجاکے بیٹھ گئی ۔ ایک بہت بڑا کارخانہ تھا جس میں کوئی ظالم جابر ہاتھ انسانی جسموں کو لے کر گنے کا رس نکالنے والی چرخی میں ٹھونستا چلا جاتا ہے۔ اور دوسرے ہاتھ سے توڑ مروڑ کر دوسری طرف پھینکتا جاتا ہے۔ اور یکا یک جیونا اپنی بیٹی کو دھکا دے کر الگ کھڑی ہو گئی اور چیخیں مار مار کر رونے لگی۔
تیسری ساڑھی کا رنگ مٹ میلا نیلا بھی ہے اور میلا بھی اور مٹیالا بھی ہے کچھ ایسا عجیب سا رنگ ہے جو بار بار دھونے پر بھی نہیں نکھرتا بلکہ غلیظ ہو جاتا ہے۔ یہ میری بیوی کی ساڑھی ہے۔ میں فورٹ میں دھنو بھائی کی فرم میں کلرکی کرتاہوں مجھے پینسٹھ روپے تنخواہ ملتی ہے۔ سیون مل اور بکریا مل کے مزدوروں کو یہی تنخواہ ملتی ہے اس لئے میں بھی ان کے ساتھ آٹھ نمبر کی چال کی ایک کھولی میں رہتا ہوں۔ مگر میں مزدور نہیں ہوں کلرک ہوں۔ میں فورٹ میں نوکر ہوں۔ میں دسویں پاس ہوں۔ میں ٹائپ کر سکتا ہوں۔ میں انگریزی میں عرضی بھی لکھ سکتاہوں۔ میں اپنے وزیراعظم کی تقریر سن کر سمجھ بھی لیتا ہوں، آج ان کی گاڑی تھوڑی دیر میں مہا لکشمی کے پل پر آئے گی، نہیںوہ ریس کورس نہیں جائیںگے۔ وہ سمندر کے کنارے ایک شاندار تقریر کریں گے۔ اس موقع پر لاکھوں آدمی جمع ہوں گے۔ ان لاکھوں میں بھی ایک ہوںگا۔ میری بیوی کو اپنی وزیراعظم کی باتیں سننے کا بہت شوق ہے۔مگر میں اسے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا کیونکہ ہمارے آٹھ بچے ہیں اور گھرمیں ہر وقت پریشانی سی رہتی ہے۔ جب دیکھو کوئی نہ کوئی چیز کم ہو جاتی ہے۔ راشن تو روز کم پڑجاتاہے۔ اب نل میں پانی بھی کم آتا ہے۔ رات کو سونے کے لئے جگہ بھی کم پڑجاتی ہے اور تنخواہ تو اس قدر کم پڑتی ہے کہ مہینے میں صرف پندرہ دن چلتی ہے۔ باقی پندرہ دن سود خور پٹھان چلاتا ہے اور وہ بھی کیسے گالیاں بکتے بکتے۔ گھسیٹ گھسیٹ کر، کسی سست رفتاری گاڑی کی طرح یہ زندگی چلتی ہے۔
میرے آٹھ بچے ہیں۔ مگر یہ اسکول میں نہیں پڑھ سکتے۔ میرے پاس ان کی فیس کے پیسے کبھی نہ ہوں گے۔ پہلے پہل جب میں نے بیاہ کیا تھا اور ساوتری کو اپنے گھر یعنی اس کھولی میں لایا تھا تو میںنے بہت کچھ سوچا تھا۔ ان دنوں ساوتری بھی بڑی اچھی اچھی باتیں سوچا کرتی تھی۔۔

 

Go to Page:

*    *    *

Maha Lakshami ka Pull by Karishan Chandar, a legendary urdu short story writer and novelest.

Go to Page :

Download the PDF version for Offline Reading.(Downloads )

(use right mouse button and choose "save target as" OR "save link as")

A PDF Reader Software (Acrobat OR Foxit PDF Reader) is needed for view and read these Digital PDF E-Books.

Click on the image below to download Adobe Acrobat Reader 5.0


[ Link Us ]      [ Contact Us ]      [ FAQs ]      [ Home ]      [ FB Group ]      [ kitaabghar.org ]   [ Search ]      [ About Us ]


Site Designed in Grey Scale (B & W Theme)