kitab ghar website logo





Don't Like Unicode ?  Read in Nastaleeq from Image Pages or Download the PDF File

 

Kitaabghar Blog:
Kitaabghar launched a Blog for discussion of urdu books available online on kitaabghar.com or any other website. Readers can also share views and reviews of books of their choice and promote their favourite writers. This is not limited to urdu books.



مہا لکشمی کا پل

 

(کرشن چندر)

 

 


گوبھی کے نازک نازک ہرے ہرے پتوں کی طرح پیاری پیاری باتیں جب وہ مسکراتی تھی تو سینما کی تصویر کی طرح خوبصورت دکھائی دیا کرتی تھی۔ اب وہ مسکراہٹ نہ جانے کہاں چلی گئی ہے۔ اس کی جگہ ایک مستقل تیوری نے لے لی ہے، وہ ذرا سی بات پر بچوں کو بے تحاشہ پیٹنا شروع کردیتی ہے اور میں تو کچھ بھی کہوں، کیسے بھی کہوں، کتنی ہی لجاجت سے کہوں وہ بس کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔پتہ نہیں ساوتری کو کیا ہوگیا ہے پتہ نہیں مجھے کیا ہوگیا ہے۔ میں دفتر میں سیٹھ کی گالیاں سنتا ہوں۔ گھر پر بیوی کی گالیاں سہتا ہوں اور ہمیشہ خاموش رہتا ہوں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں، شاید میری بیوی کو ایک نئی ساڑھی کی ضرورت ہے، شاید اسے صرف ایک نئی ساڑھی ہی کی نہیں، اک نئے چہرے، ایک نئے گھر، ایک نئے ماحول، ایک نئی زندگی کی ضرورت ہے مگر اب ان باتوں کے سوچنے سے کیا ہوتا ہے اب تو آزادی آگئی ہے اور ہمارے وزیراعظم نے یہ کہہ دیا ہے کہ اس نسل کو یعنی ہم لوگوں کو اپنی زندگی میں کوئی کام کوئی آرام نہیں مل سکتا۔ میں ساوتری کو اپنے وزیراعظم کی تقریر جو اخبار میں چھپی تھی سنائی تو وہ اسے سن کر آگ بگولہ ہو گئی اور اس نے غصے میں آکر چولھے کا قریب پڑا ہوا ایک چمٹا میرے سر پر دے مارا۔ زخم کا نشان جو آپ میرے ماتھے پر دیکھ رہے ہیں اسی کا نشان ہے۔ساوتری کی مٹ میلی نیلی ساڑھی پر بھی ایسے کئی زخموں کے نشان ہیں مگر آپ انہیں دیکھ نہیں سکیں گے ۔ میں دیکھ سکتا ہوں۔ ان میں سے ایک نشان تو اسی مونگیا رنگ کی جارجٹ کی ساڑھی کا ہے جواس نے اوپیرا ہاؤس کے نزدیک بھوندو رام پارچہ فروش کی دکان پر دیکھی تھی۔ ایک نشان اس کھلونے کا ہے جو پچیس روپے کا تھا اور جسے دیکھ کر میرا پہلا بچہ خوشی سے کلکاریاں مارنے لگا تھا ، لیکن جسے ہم خرید نہ سکے ، اور جسے نہ پا کر میرا بچہ دن بھر روتا رہا، ایک نشان اس تار کا ہے جو ایک دن جبل پور سے آیا تھا۔ جس میں ساوتری کی ماں کی شدید علالت کی خبر تھی۔ ساوتری جبل پور جانا چاہتی تھی لیکن ہزار کوشش کے بعد بھی کسی سے مجھے روپے ادھار نہ مل سکے تھے اور ساوتری جبل پور نہ جا سکتی تھی۔ ایک نشان اس تار کا تھا جس میں اس کی ماں کی موت کا ذکر تھا ۔ ایک نشان مگر کس کس نشان کا ذکر کروں ان چتلے چتلے گدلے گدلے غلیظ داغوں سے ساوتری کی پانچ روپے چار آنے والی ساڑھی بھری پڑی ہے۔ روز روز دھونے پر بھی یہ داغ نہیں چھوٹتے اور شاید جب تک یہ زندگی رہے یہ داغ یوں ہی رہیںگے۔ ایک ساڑھی سے دوسری ساڑھی میں منتقل ہوتے جائیں گے۔
چوتھی ساڑی قرمزی رنگ کی ہے اور قرمزی رنگ کی ساڑھیاں ہیں لیکن بھورا رنگ ان میں جھلکتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان سب کی زندگی ایک ہے۔ جیسے ان سب کی قیمت ایک ہے جیسے یہ سب زمین سے کبھی اوپر نہیں اٹھیں۔ جیسے انہوں نے کبھی شبنم میں ہنستی ہوئی دھنک ، افق پر چمکتی ہوئی شفق، بادلوں میں لہراتی ہوئی برق نہیں دیکھی۔ جیسے شانتا بائی کی جوانی ہے وہ جیونا کا بڑھاپا ہے۔ وہ ساوتری کا ادھیڑ پن ہے۔ جیسے یہ سب ساڑھیاں، زندگیاں، ایک رنگ، ایک سطح، ایک تواتر، ایک تسلسل یکسانیت لئے ہوئے ہوا میں جھولتی جاتی ہیں۔
یہ قرمزی رنگ کی بھورے رنگ کی ساڑھی جھبو بٹھے کی عورت کی ہے۔ اس عورت سے میری بیوی بھی بات نہیں کرتی کیونکہ اس کے تو کوئی بچہ وچہ نہیں ہے اور ایسی عورت جس کے کوئی بچہ نہ ہو بڑی نجس ہوتی ہے۔ جادو ٹونے کرکے دوسروں کے بچوں کو مار ڈالتی ہے اور بد روحوں کو بلا کے اپنے گھر میں بسا لیتی ہے۔ میری بیوی اسے کبھی منہ نہیں لگاتی۔ یہ عورت جھبو بھیا نے خرید کر حاصل کی ہے۔ جھبو بھیا مراد آباد کا رہنے والا ہے لیکن بچپن ہی سے اپنا دیس چھوڑ کر ادھر چلا آیا۔ وہ مراٹھی اور گجراتی زبان میں بڑی مزے سے گفتگو کر سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے اسے بہت جلد پوار گئی کھاتے میں جگہ مل گئی۔ جھبو بھیا کو شروع ہی سے بیاہ کا شوق تھا۔ اسے بیڑی کا تاڑی کا کسی چیز کا شوق نہیں تھا۔ شوق تھا تو اس صرف اس بات کا کہ اس کی شادی جلد سے جلد ہو جائے۔ جب اس کے پاس ستر اسی روپے اکٹھے ہو گئے تو اس نے اپنے دیس جانے کی ٹھانی تاکہ وہاں اپنی برادری سے کسی کو بیاہ لائے، مگر پھر اس نے سوچا ان ستر اسی روپوں سے کیا ہوگا، آنے جانے کا کرایہ بھی بڑی مشکل سے پورا ہو گا، چار سال کی محنت کے بعد اس نے یہ رقم جوڑی تھی لیکن اس رقم سے وہ مراد آباد جا سکتاتھا جا کے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے جھبو بھیا نے ایک بدمعاش سے بات چیت کرکے اس عورت کو سوروپے میں خرید لیا۔۔

 

Go to Page:

*    *    *

Maha Lakshami ka Pull by Karishan Chandar, a legendary urdu short story writer and novelest.

Go to Page :

Download the PDF version for Offline Reading.(Downloads )

(use right mouse button and choose "save target as" OR "save link as")

A PDF Reader Software (Acrobat OR Foxit PDF Reader) is needed for view and read these Digital PDF E-Books.

Click on the image below to download Adobe Acrobat Reader 5.0


[ Link Us ]      [ Contact Us ]      [ FAQs ]      [ Home ]      [ FB Group ]      [ kitaabghar.org ]   [ Search ]      [ About Us ]


Site Designed in Grey Scale (B & W Theme)