|
مہا لکشمی کا پل
(کرشن چندر)
اسی روپے اس
نے نقد دئیے بیس روپے ادھار میں رہے جو اس نے ایک سال کے عرصے میں ادا کردئیے بعد
میں جھبو بھیا کو معلوم ہوا کہ یہ عورت بھی مرادآباد کی رہنے والی تھی ۔ دھیرج گاؤں کی اس کی برادری کی ہی تھی۔ جھبو بڑا خوش تھا چلو یہیں بیٹھے بیٹھے کام ہو گیا۔
اپنی جات برادری کی ، اپنے ضلعے کی۔ اپنے دھرم کی عورت یہیں بیٹھے بٹھائے سوروپے
میں مل گئی۔ اس نے بڑے چاؤ سے اپنا بیاہ رچایا اور پھر اسے معلوم ہوا کہ اس کی
بیوی بڑیا بہت اچھا گاتی ہے۔ وہ خود بھی اپنی پاٹ دار آواز میں زور سے گانے بلکہ
گانے سے زیادہ چلانے کا شوقین تھا۔اب تو کھولی میں دن رات گویا کسی نے ریڈیو کھول
دیا ہو، دن میں کھولی میں لڑیا کام کرتے ہوئے گاتی تھی۔ رات کو جھبو اور لڑیا دونوں
گاتے تھے۔ ان کے ہاں کوئی بچہ نہ تھا۔ اس لئے انہوں نے ایک طوطا پال رکھا تھا، میاں
مٹھو خاوند اور بیوی کو گاتے دیکھ دیکھ کر خود بھی لہک لہک کر گانے لگے ۔ لڑیا میں
ایک اور بات تھی ۔ جھبو نہ بیڑی پیتا نہ سگریٹ نہ تاڑی نہ شراب، لڑیا بیڑی، سگریٹ،
تاڑی سبھی کچھ پیتی تھی۔ کہتی تھی پہلے وہ یہ سب کچھ نہیں جانتی تھی مگر جب سے وہ
بدمعاش کے پلے پڑی اسے یہ باتیں سیکھنا پڑیں اور اب وہ اور سب باتیں توچھوڑ سکتی ہے
مگر بیڑی اور تاڑی نہیں چھوڑ سکتی۔ کئی بار تاڑی پی کر لڑیا نے جھبو پر حملہ کردیا
اور جھبو نے اسے روئی کی طرح دھنک کررکھ دیا۔ اس موقع پر طوطا بہت شور مچاتا تھا۔
رات کو دونوں کو گالیاںبکتے دیکھ کر خود بھی پنجرے میں ٹنگا ہوا زور زور سے چلانے
لگتا۔ لڑیا کو مت مارو اور مادر چود لڑیا کو مت مارو۔ ایک بار تو اس کی گالی سن کر
جھبو غصے میں آکے طوطے کو پنجرے سمیت بدرو میں پھینکنے لگا تھا مگر جیونا نے بیچ
میں پڑکے طوطے کو بچا لیا۔ طوطے کو مارنا بڑا پاپ ہے۔ جیونا نے کہا۔ تمہیں پھر
براہمنوں کو بلا کے پرائسچت کرنا پڑے گا اور تمہارے پندرہ بیس روپے کھل جائیں گے۔
یہ سوچ کر چھوٹے چھوٹے طوطے کو بدرو میں غرق کر دینے کا خیال ترک کردیا۔
شروع شروع میں تو جھبو کو ایسی شادی پر چاروں طرف سے گالیاں پڑیں وہ خود بھی لڑیا
کو بڑے شبہ کی نظروں سے دیکھتا اور کئی بار بلاوجہ اسے پیٹا اور خود بھی مل سے غیر
حاضر رہ کر اس کی نگرانی کرتا رہا مگر آہستہ آہستہ لڑیا نے اپنا اعتبار ساری چال
میں قائم کرلیا۔ لڑیا کہتی تھی کہ عورت سچے دل سے بد معاشوں کے پلے پڑنا پسند نہیں
کرتی، وہ تو ایک گھر چاہے وہ چھوٹا ہی سا گھر ہو۔ وہ ایک خاوند چاہتی ہے۔ جو اس کا
اپنا ہو۔ چاہے وہ جھبو بھیا جیسا ہر وقت شجور مچان والا، زبان دراز، شیخی خور ہی
کیوں نہ ہو، وہ ایک ننھا بچہ چاہتی ہے چاہے وہ کتنا ہی بد صورت کیوں نہ ہو اور اب
لڑیا کے پاس بھی گھر تھا، اور جھبو بھی تھا اور اگر بچہ نہیں تھا تو کیا ہوا ہوجائے
گا اور اگر نہیں ہوتا تو بھگوان کی مرضی۔ یہ میاں مٹھو ہی اس کا بیٹا بنے گا۔
ایک روز لڑیا اپنے میاں مٹھو کا پنجرا جھلا رہی تھی اور اسے چوری کھلا رہی تھی اور
اپنے دن کے سپنوں میں اس ننھے سے بالک کو دیکھ رہی تھی اور جو فضا میں ہمکتا ہمکتا
اس کی آغوش کی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا کہ چال میں شور بڑھنے لگا اور اس نے دروازے
سے جھانک کر دیکھاکہ چند مزدور جھبو کو اٹھائے چلے آرہے ہیں اور ان کے کپڑے خون سے
رنگے ہوئے ہیں۔ لڑیا کادل دھک سے رہ گیا۔ وہ بھاگتی بھاگتی نیچے گئی اور اس نے بڑی
درشتی سے اپنے خاوند کو مزدوروں سے چھین کر اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور اپنی کھولی
میں لے آئی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ جھبو سے گنی کھاتے کے مینجر نے کچھ ڈانٹ ڈپٹ کی،
اس پر جھبو نے بھی دو ہاتھ جڑ دئیے ۔ اس پر بہت واویلا مچا اور مینجر نے اپنے بد
معاشوں کو بلا کے جھبو کی خوب پٹائی کی اور اسے مل سے باہر نکال دیا، خیریت ہوئی کہ
جھبو بچ گیا۔ ورنہ اس کے مرنے میں کوئی کسر نہ تھی۔ لڑیا نے بہت بڑی ہمت سے کام
لیا۔ اس نے اسی روز سے اپنے سر پر ٹوکری اٹھالی اور گلی گلی ترکاری بھاجی بیچنے
لگی، جیسے وہ زندگی میں یہی دھندا کرتی آئی تھی ۔ اس طرح محنت مزدوری کرکے اس نے
اپنے جھبو کو اچھا کرلیا۔ جھبو اب بھلا چنگا ہے مگر اب اسے کسی مل میں کام نہیں
ملتا۔وہ دن بھر اپنی کھولی میں کھڑا مہالکشمی کے اسٹیشن کے چاروں طرف بلند و بالا
کارخانوں کی چمنیوں کو تکتا رہتا ہے۔ سیون مل، لالڈ مل، دھن راج مل لیکن اس کے لئے
لڑیا بازاروں اور گلیوں میں آوازیں دے کر بھائی ترکاری فروخت کرتی ہے اور گھر کا
سارا کام کاج بھی کرتی ہے۔ اس نے بیڑی تاڑی سب چھوڑ دی ہے۔ ہاں اس کی ساڑھی قرمزی
بھورے رنگ کی ساڑھی جگہ جگہ سے پھٹتی جارہی ہے۔ تھوڑے دنوں تک اگر جھبو کو کام نہ
ملا تو لڑیا کو اپنی ساڑھی پر پرانی ساڑھی کے ٹکڑے جوڑنا پڑیں گے اور اپنے میاں
مٹھو کو چوری کھلانا بند کرنا پڑے گی۔
|