kitab ghar website logo





Don't Like Unicode ?  Read in Nastaleeq from Image Pages or Download the PDF File

 

Kitaabghar Blog:
Kitaabghar launched a Blog for discussion of urdu books available online on kitaabghar.com or any other website. Readers can also share views and reviews of books of their choice and promote their favourite writers. This is not limited to urdu books.



مہا لکشمی کا پل

 

(کرشن چندر)

 

 


پانچویں ساڑھی کا کنارہ گہر ا نیلا ہے۔ ساڑھی کا رنگ گدلا سرخ ہے۔ لیکن کنارہ گہر نیلا ہے اور اس نیلے میں اب بھی کہیں کہیں چمک باقی ہے۔ یہ ساڑھی دوسری ساڑھیوں سے بڑھیا ہے کیونکہ یہ ساڑھے پانچ روپے چار آنے کی ہے۔ اس کا کپڑا اس کی چمک دمک کہتے ہیں کہ یہ ان سے ذرا مختلف ہے۔ آپ کو دور سے یہ مختلف معلوم نہیںہوتی ہوگی مگر میں جانتا ہوں کہ یہ ان سے ذرا مختلف ہے۔ اس کا کپڑا بہتر ہے۔ اس کا کنارہ چمک دار ہے۔ اس کی قیمت پونے نو روپے ہے۔ یہ ساڑھی منجولا کی ہے۔ یہ ساڑھی منجولا کے بیاہ کی ہے۔ منجولا کے بیاہ کو ابھی چھ ماہ بھی نہیں ہوئے ہیں ۔ اس کا خاوند گذشتہ ماہ چرخی کے گھومتے ہوئے پٹے کی لپیٹ میں آکے مارا گیا تھا اور اب سولہ برس کی خوبصورت منجولا بیوہ ہے۔ اس کا دن جوان ہے۔ اس کا جسم جوان ہے۔ اس کی امنگیں جوان ہیں۔ لیکن وہ اب کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا خاوند مل کے ایک حادثے میں مر گیا ہے ۔ وہ پٹہ بڑا ڈھیلا ہے اور گھومتے ہوئے بار بار پھٹپھٹاتاتھا اور کام کرنے والوں کے احتجاج کے باوجود اسے مل مالکوںنے نہیں بدلا تھا کیونکہ کام چل رہا تھا اور دوسری صورت میں تھوڑی دیر کے لئے کام بند کرنا پڑتا ہے۔ پٹے کو تبدیل کرنے کے لئے روپیہ خرچ ہوتاہے۔ مزدور تو کسی وقت بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے روپیہ تھوڑی خرچ ہوتا ہے لیکن پتہ تو بڑی قیمتی شے ہے۔
جب منجولا کا خاوند مارا گیا تو منجولا نے ہر جانے کی درخواست دی جو نا منظو ر ہوئی کیونکہ منجولا کا خاوند اپنی غفلت سے مرا تھا، اس لئے منجولا کو کوئی ہرجانہ نہ ملا اور وہ اپنی وہی نئی دلہن کی ساڑھی پہنے رہی جو اس کے خاوند نے پونے نور روپے میں اس کے لئے خریدی کی تھی کیونکہ اس کے پاس کوئی دوسری ساڑھی نہ تھی جو وہ اپنے خاوند کی موت کے سوگ میں پہن سکتی۔ وہ اپنے خاوند کے مرجانے کے بعد بھی وہ دلہن کا لباس پہننے پر مجبور تھی کیونکہ اس کے پاس کوئی دوسری ساڑھی نہ تھی۔ اور جو ساڑھی تھی وہ یہی گدلے سرخ رنگ کی تھی پونے نو روپے کی ساڑھی جس کا کنارہ گہر نیلا ہے۔
شاید اب منجولا بھی پانچ روپے چار آنے کی ساڑھی پہنے گی۔ اس کا خاوند زندہ رہتا جب کبھی وہ دوسری ساڑھی پانچ روپے چار آنے کی لاتی، اس لحاظ سے اس کی زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ مگر فرق اتنا ضرور ہوا ہے کہ وہ یہ ساڑھی آج پہننا چاہتی ہے ۔ ایک سفید ساڑھی پانچ روپے چار آنے والی جسے پہن کر وہ دلہن نہیں بیوہ معلوم ہو سکے۔یہ ساڑھی اسے دن رات کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ اس ساڑھی سے جیسے اس کے مرخوم خاوند کی بانہیں لپٹی ہیں۔ جیسے اس کے ہر تار پر اس کے شفاف بوسے مرتسم ہیں۔ جیسے اس کے تانے بانے میں اس کے خاوند کی گرم گرم سانسوں کی حدت آمیز غنودگی۔ اس کے سیاہ بالوں والی چھاتی کا سارا پیار دفن ہے۔ جیسے اب یہ ساڑھی نہیں ہے۔ ایک گہری قبر ہے جس کی ہولناک پہنائیوں کو وہ ہر وقت اپنے جسم کے گرد لپیٹ لینے پر مجبور ہے۔ منجولا زندہ قبر میں گاڑی جارہی ہے۔
چھٹی ساڑھی کا رنگ لال ہے لیکن اسے یہاں نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کی پہننے والی مرچکی ہے پھر بھی یہ ساڑھی یہاں جنگلے پر بدستور موجود ہے۔ روز کی طرح دھلی دھلائی ہوا میں جھول رہی ہے۔ یہ مائی کی ساڑھی ہے جو ہمار ی چال کے دروازے کے قریب اندر کھلے آنگن میں رہا کرتی تھی۔ مائی کا ایک بیٹا تھا سیتو۔ وہ اب جیل میں ہے۔ ہاں سیتو کی بیوی اور اس کا کوئی لڑکا یہیں نیچے آنگن میں دروازے کے قریب نیچے پڑے رہتے ہیں۔سیتو سیتو کی بیوی ۔ ان کی لڑکی اور بڑھیا مائی۔ یہ سب لوگ ہماری چال کے بھنگی ہیں۔ ان کے لئے کھولی بھی نہیں ہے اور ان کے لئے اتنا کپڑا بھی نہیں ملتاجتنا ہم لوگوں کو ملتا ہے اس لئے یہ لوگ آنگن میں رہتے ہیں۔ وہیں پکاتے ہیں جتنا زمین پر پڑ کے سو رہتے ہیں۔ یہیں پہ بڑھیا ماری گئی تھی، وہ بڑا سوراخ جو آپ اس ساڑھی میں دیکھ رہے ہیں پلو کے قریب۔ یہ گولی کا سوراخ ہے، یہ کارتوس کی گولی مائی کو بھنگیوں کی ہڑتال کے دنوں میں لگی تھی۔نہیں وہ اس ہڑتال میں حصہ نہیں لے رہی تھی وہ بے چاری تو بہت بوڑھی تھی، چل پھر بھی نہ سکتی تھی۔ اس ہڑتال میں تو اس کا بیٹا سیتو اور دوسرے بھنگی شامل تھے، یہ لوگ مہنگائی مانگتے تھے اور کھولی کا کرایہ مانگتے تھے یعنی اپنی زندگی کے لئے دو وقت کی روٹی ، کپڑا اور سر پر ایک چھت چاہتے تھے۔ اس لئے ان لوگوں نے ہڑتال کی تھی اور جب ہڑتال خلاف قانون قرار دے دی گئی تو ان لوگوں نے جلوس نکلا اور اس جلوس میں مائی کا بیٹا سیتو آگے آگے تھا اور خوب زور و شور سے نعرے لگاتا تھا۔ پھر جب جلوس بھی خلاف قانون قرار دے دیا گیا تو گولی چلی اور ہماری چال کے سامنے چلی۔

 

Go to Page:

*    *    *

Maha Lakshami ka Pull by Karishan Chandar, a legendary urdu short story writer and novelest.

Go to Page :

Download the PDF version for Offline Reading.(Downloads )

(use right mouse button and choose "save target as" OR "save link as")

A PDF Reader Software (Acrobat OR Foxit PDF Reader) is needed for view and read these Digital PDF E-Books.

Click on the image below to download Adobe Acrobat Reader 5.0


[ Link Us ]      [ Contact Us ]      [ FAQs ]      [ Home ]      [ FB Group ]      [ kitaabghar.org ]   [ Search ]      [ About Us ]


Site Designed in Grey Scale (B & W Theme)