kitab ghar website logo





Don't Like Unicode ?  Read in Nastaleeq from Image Pages or Download the PDF File

 

Kitaabghar Blog:
Kitaabghar launched a Blog for discussion of urdu books available online on kitaabghar.com or any other website. Readers can also share views and reviews of books of their choice and promote their favourite writers. This is not limited to urdu books.



اوور کوٹ

 

(غلام عبّاس)

 

 


جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیئرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی ، سفید رنگ کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہواایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آکے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ تھا۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آکے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آرہا ہو۔
اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کردیتا۔ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے ”نو تھینک یو“ کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا۔ اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا میچ ہو رہا ہو۔
راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیئرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آگئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میںاڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا۔ تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔بچے کچھ دیر تک اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانگے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کرہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آکے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جارہی تھی ۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوارنہ تھی۔ بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصول لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی۔ اور وہ حسب توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محفوظ ہو رہے تھے۔۔

 

Go to Page:

*    *    *

Over Kot by Ghulam Abbas, a well known urdu short story writer, who has many memorable urdu afsanay on his credit

Go to Page :

Download the PDF version for Offline Reading.(Downloads )

(use right mouse button and choose "save target as" OR "save link as")

A PDF Reader Software (Acrobat OR Foxit PDF Reader) is needed for view and read these Digital PDF E-Books.

Click on the image below to download Adobe Acrobat Reader 5.0


[ Link Us ]      [ Contact Us ]      [ FAQs ]      [ Home ]      [ FB Group ]      [ kitaabghar.org ]   [ Search ]      [ About Us ]


Site Designed in Grey Scale (B & W Theme)