|
اوور کوٹ
(غلام عبّاس)
جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور
چیئرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش
سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں چمکتے ہوئے بال، باریک باریک
مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے
ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز
فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی ، سفید رنگ کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا
ہواایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی
کبھی مزے میں آکے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ تھا۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی
طرح جسم پر آکے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا اور
لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے
اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آرہا ہو۔
اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ
گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کردیتا۔ایک خالی
ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے ”نو تھینک یو“ کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا۔ اس کی چونچالی
بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔اس کے
ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا
تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا
کرکٹ کا میچ ہو رہا ہو۔
راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے
اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا
اور سیدھا چیئرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آگئی۔ اس نے
اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میںاڑس رکھا
تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا۔ تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے
ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ بڑی دلچسپی سے ان کا
کھیل دیکھنے لگا۔بچے کچھ دیر تک اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ
برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانگے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال
کرہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آکے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام
کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جارہی تھی ۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوارنہ
تھی۔ بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ
تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے
ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں
جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصول لذت کی یہی جستجو لوگوں کو
مال پر کھینچ لائی تھی۔ اور وہ حسب توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں،
سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محفوظ ہو رہے تھے۔۔
|