|
اوور کوٹ
(غلام عبّاس)
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر
چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دورویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا
بازار بھی گرم تھا جن کم نصیبوں کونہ تفریح طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی
وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا
رہ تھے ۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ
رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر
وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے
طلباءاور طالبات، برسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو (زیادہ تر لوگ اوور
کوٹ پہنے ہوئے تھے) ہر قسم کے اوور کوٹ قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی
پٹی کے پرانے فوجی اوورکوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اووکوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا
ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ
بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریزیں بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں
نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا
تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا نوجوان نے آواز دی۔
”پان والا“۔
”جناب!“
”دس کا چینج ہے؟“
”ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟“
”اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔
لیں گے کیا آپ؟“
”نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ گولڈ فلیک کا ایک سگریٹ دے
دو اور چلے جاؤ۔“
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا
تھا۔ گولڈ فلیک کے مصفا دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کردی۔
ایک چھوٹی سی سفید رنگ کی بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں
آکر میاؤںمیاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار
سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔
”پور لٹل سو ل“
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا گیا جدھر سینما
کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ سینما کے برآمدے میں
بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔
یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر
دکھائے گئے تھے۔
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص
شان استغنا مگر صنف نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ
ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی
باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ ایک لڑکی نے ، جو اپنی ساتھ
ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے
بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
|