|
اوور کوٹ
(غلام عبّاس)
بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا۔اور
کئی جگہ کھونچیں بھی لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے
لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ
پھر مس شہناز اور مس گلی کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں
کی جراب سے بالکل مختلف تھی پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں۔ اس قدر کہ ان میں
سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آرہی تھیں۔
بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا
تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔
معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ
اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:
ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی ، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی
سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔
اس ہسپتال کے شعبہ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز
اور مس گل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کر آپریشن روم میں لے جایا جا
رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے
جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون
کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے ازراہ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ
پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا:
”کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ“۔
گل دبی آواز میں بولی۔
”خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شام منانے۔“
”ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟“
”نہیں بھا گیا۔“
”کتنے افسوس کی بات ہے۔“
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھا۔ جنہوں نے
ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا ۔ اس کی دیکھ بھال میں مصروف
تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو تیل ڈال رکھا
تھا۔ اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔حادثے سے اس کی
دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا
گیا ۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا اس سے زیادہ
وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقابے
تلے، چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بنائیں۔
نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران میں
اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئیے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی
جیب میں ڈال دیاتھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں
شامل نہ تھی۔
|