|
پسماندگان
(انتظار حسین)
ہاشم خان اٹھا لیس برس کاکڑیل جوان ‘ لمبا تڑنگا ‘ سرخ و سفید جسم آن کی آن میں چٹ
پٹ ہوگیا ۔ کمبخت مرض بھی آندھی و ہاندی آیا ۔ صبح لکی ہلکی حرارت تھی شام ہوتے
ہوتے بخار تیز ہوگیا ۔صبح جب ڈاکٹر آیا تو پتہ چلا کہ سرسام ہوگیا ہے ۔ غریب ماں
باپ نے اپنی سی سب کچھ کر ڈالی ۔ دن بھر میں ڈاکٹر سے لے کر پیروں فقیروں تک سب کے
دروازے کھٹکھٹاتے لیکن نہ دوا دارو نے اثر کیا اور نہ تعویز گنڈے کام آئے ۔ پہر رات
ہوئی تھی پھر حالت بھگڑ گئی اور ایسی بگڑی کہ صبح پکڑنی دشوار ہوگئی ۔ ماں باپ نے
ساری رات آنکھوں میں کاٹی اور بلک بلک کر دعا مانگی کہ کسی طرح صبح ہوجائے ۔ان کی
دعا قبول ہوئی تو سہی مگر ادھر صبح کا گجربجھا ادھرمریض نے پٹ سے دم دے دیا ۔ آناً
فاناً مرنے والوں کی خبر بھی آناً فاناً پھیلتی ہے سارے محلہ میں ملک پڑ گیا جس نے
سنا سناٹے میںآگیا حلیمہ بوا کے گھر خبر نبونے پہنچائی ۔دہلیز میں قدم رکھتے ہی
بولی” اجی حلیمہ بوا قہر ہوگیا ۔ ہاشم ختم ہوگیا “ حلیمہ بوا کے منہ سے بے ساختہ
نکلا” ہئے ہئے “ حلیمہ بوا اس وقت چولہے پہ بیٹھی بچوں کے ناشتہ کےلئے روٹی ڈال رہی
تھی ۔ مگر ہاتھ پیر ہاتھ ہی میں رہ گیا ۔ فوراً نہوں نے الٹا چولہے کی آگ ٹھنڈی
کردی ۔ کلثوم کی بیٹی کی خا نصا حبنی سے ایسی لڑائی تھی کہ آپس کا بھاجی بخرا بھی
بند تھا ۔ چنانچہ کلثوم کی بیٹی کا منہ کھلا ہوا ہے نابی بی میںضرور جاؤں گی “۔
یہ کہہ کر چادر اٹھا فوراً خانصاحب مبنی کے گھر کی طرف روانہ ہوگئی ۔ صوبیدارنی بھی
خبر سنتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی تھیں ۔ مگر پھرانہیں کچھ خیال آیا صوبیدار صاحب کو
مردانے سے بلوا کر ہدایت کیا وقت کی روٹی ہماری طرف سے ہو گی اس کا انتظام کرواؤ
میں جارہی ہوں “ پھرانہوںنے چلتے چلتے نوکرانی کو بھی ایک ہدایت کرڈالی کہ اری دیکھ
ری رات کی روٹیں رکھی ہیں لونڈے کوبھوک لگے تو گھی بوراسے اسے روٹی کھلا دیجو “۔
صوبیدارنی نے خانصا حبنی کے گھر تک کا راستہ عجلت سے لیکن خاموشی سے طےکیا ۔ انہوں
نے عورتوں کی تقلید مناسب نہ سمجھ جنہوں نے مردوں کے ہجوم سے گزرتے ہوئے گلی ہی سے
اپنے جزبات کا دبہ دبہ اظہار شروع کر دیا تھا ۔ ہاں دہلیز سے گھسنے کے بعد ان سے
ضبط نہ ہوسکا ا ن کے بین صرف چند لمحوں تک سنے جاسکے گھر میں کہرام مچا ہوا تھا ۔
اس میں صوبیدارنی یا کسی کی آواز بھی الگ سنائی نہیں دے سکتی تھی ۔
گھرمیں کہرام مچا ہوا تھا لیکن باہراسی قدر خاموشی چھائی ہوئی تھی بیٹھک سے کرسیاں
اٹھا دی گئی تھیں ۔ اب وہاں صرف جاجم بچھی ہوئی تھی ایک شخص خاموشی سے بیٹھا کفن سی
رہا ہے ۔اس کے چہرے پہ نہ تو حزن و ملال کی کیفیت تھی اور نہ اطمینان اور خوشی کی
جھلک تھی ایسی جاندار چیزیں بھی ہوتی ہیں جو احساس سے سرے سے ہی عاری ہوتی ہیں ۔
اور ایسی بے جان چیزیں بھی ہوتی ہیں جو ہر دم ایک نئی کیفیت پیدا کرتی ہیں ۔ سفید
لٹھا عید کی چاندنی رات کو درزی کی جس دوکان اور جس گھر میں نظر آتا ہے اس سے حرکت
اور روشنی پیدا ہوتی ہے ۔ جب اس کا کفن سلتا ہے تو سفید غبار کی طرح بیٹھنے لگتا ہے
۔ بیٹھک میں سب سے نمایاں چیزتو یہ کفن ہی تھا ۔ ویسے اس سے الگ ایک کونے میں خان
صا حب گھٹنوں میں سر دیے چپ چاپ بیٹھے تھے ۔ اکا وکا اور لوگ بھی وہاں نظر آتے لیکن
زیدہ لوگوں نے بیٹھک سے باہر گلی میںٹھہرنا مناسب سمجھا تھا ۔ وبی وبی آواز میں
گفتگو ہوتی اور خود بخود ختم ہوجاتی ۔ پھر کوئی نیا شخص گلی میں داخل ہوتا ۔آہستہ
سے کسی کے پاس جاکھڑا ہوتا ۔ سرگوشی کے اندازمیں کچھ سوال کرتا کچھ غم اور حیرت کا
اظہار کرتا او ر پھر چپ ہوجاتا ۔ صوبیدار سب سے الگ بیٹھک کی دہلیز پر اکڑوں بیٹھے
کسی سوچ میں گم تھے ۔ بیٹھک کے سامنے ذرا ہٹ کر ایک دوسرا مکان تھاجس کے پتھر پہ
باقر بھائی اور تجمل بیٹھے بڑے سنجیدہ انداز میں ہولے ہولے باتیں کرتے تھے ان کے
انداز گفتگو نے علی ریاض کو کئی مرتبہ لکچایا تھا ‘ لیکن ا ن کے پاس جانے کا اسے
کوئی بہان ہاتھ نہ آیا ۔ البتہ جب چھنوں میاں وہاں پہنچے تو ہمت کرکے وہ بھی آہستہ
سے ادھرہولیا۔
|