|
پسماندگان
(انتظار حسین)
چھنوں میاں ہاشم کی خبر سن کر گھر سے بہت لپ کے چلے تھے ۔ لیکن گلی
میں داخل ہوتے ہے ان کی رفتار دھیمی پڑگئی شاید انہیں اپنے قدموں کی آہٹ سے بھی کچھ
الجھن ہورہی تھی ۔ چھنوں میاں جب تجمل اور باقر بھائی کے پاس پہنچے تو اس وقت تجمل
ہاشم خاں کے تھانیداری کے انتخاب کا ذکر کررہا تھا ۔ “ ہاشم خاں کی چھاتی تھی غضب
تھی مجھ سے تو دو اس میں سما جائیں ۔ بس باقر بھائی سمجھ لو کہ سپرنٹنڈنٹ نے جو
دیکھا تو دنگ رہ گیا “۔علی ریاض آہستہ سے بولے “ کیا خبر ہے بھائی اسی کی نظر لگ
گئی ہو “
“ ہاں کیا خبر ہے “ تجمل نے تائید کی ۔
باقر بھائی دھیمے سے لمجہ میں بولے “ سب کہنے کی باتیں ہیں ۔ موت کا بہانہ ہوتا ہے
کل نفس ذائقہ الموت
چھنوں میاں نے ٹھنڈا سا سانس لیا ” کیا خدا کی قدرت ہے ؟“ باقر بھائی دونوں ہاتھوں
سے سر پکڑے اکڑوں بیٹھے تھے ۔ اگلی نگا ہیں زمین پہ جمی ہوئی تھیںاسی کیفیت میں
بیٹھے بیٹھے پھر بولے ”آدمی میں کیا رکھا ہے ۔ ہوا کا جھونکا ہے آیا اور گیا“
علی ریاض کی آنکھوں میں ایک تحیرکی کیفیت پیدا ہوئی “ باقر بھائی کیا ہوتا ہے ۔
آدمی اچھا خاصہ بیٹھا کہ ۔ہچکی آئی پٹ سے دم نکل گیا ۔ جارہا ہے ۔ جارہا ہے ۔ ٹھوکر
لگی ۔آدمی ختم کچھعجب کرشمہ ہے “
باقر بھائی سوچتے ہوئے بولے “بس بھائی سانس کا ایک تار ہے جب تک چلتا ہے ‘ چلتا ہے
۔ ذرا ٹھیس لگی ‘ تار ٹوٹاآدمی ختم “
قبل اور چھنوں میاں دونوں کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ چند لمحوں تک علی ریض بھی چپ
رہا ۔ مگروہ بولا بھی تو کچھ اس انداز سے گو یا خواب میں بڑ بڑا رہا ہے”زندگی کا
کیا بھروسہ آنکھ بند ہوئی کھیل ختم ....کہا ستم ہے ادھر نوکری کا پروانہ آیا ادر
موت کا تار برقی آگیا اس کے بھید وہی جانے عجب کارخانہ ہے اس کا ” پھر علی ریاض بھی
کسی سوچ میں ڈوب گیا ایک ڈیڑھ منٹ تک مکمل خاموشی رہی ۔علی ریاض اور چھنوں میاں
دونوں بت بنے ہوتے تھے باقر بھائی بد مستور ہاتھوں میں سرتھامے کہنیاں گھٹنوں پہ
ٹیکے بیٹھے تھے ۔ مگر ان کی آنکھیں شاید اب بند ہوتی جارہی تھیں علی ریاض پھر چونکا
اور ؟؟؟؟؟؟؟باقر بھائی سے مخاطب ہوا” باقر بھائی .... خدا ہے بھی یا نہیں ؟ باقر
بھائینے اپنی آنکھیں کھولیں ” بھائی میرے ....“....وہ رکے اور پھربولے ” موت ہی اس
کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ خدا ہے “۔
علی ریاض باقر بھائی کی صورت تکتا رہا ۔پھر خیال کی نہ جانے کونسی دنیا میں پہنچ
گیا تجمل اور چھنوں میاں پھر کسی خیال تک گم تھے ۔ پھرچھنوں میاں نے گھٹنے سے اپنی
ٹھوڑ ی اٹھائی اور نیم محسوس سے انداز میں پھر چھاگئی باقر بھائی اس طرح بے حسن و
حرکت بیٹھے تھے البتہ علی ریاض اور تجمل نے ان کی طرف دیکھا مگر کچھ بولے نہیں ۔
چھنوں میاں کی زبان سے ایک فقرہ پھر نکلا ” باربار اس کی شکل آنکھوں کے سامنے آتی
ہے ۔ یقین نہیں آتا کہ وہ مرگیا ۔
”یقین کیسے آئے یار “تجمل آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا “ ترسوں تک تو اچھا بھلا تھا ۔
بازار میں مجھ سے مڈھ بھیڑ ہوئی میں پوچھنے لگا ”ہاشم خاں کب جارہے ہو نوکری پہ
”بولا“ یار تقرری تو ہوگئی ہے اس ہفتے میں چلا ہی جاؤں گا “۔
علی ریاض نے ٹھنڈا سانس لیا۔ ” ہاں غریب چلا ہی گیا “
چھنوں میاں نے علی ریاض کے فقرے پر دھیان نہیں دیا ۔ وہ تجمل سے مخاطب تھے ” بھئی
پچھلی جمعرًات کو میں اور وہ دونوں شکار کوگئے ہیں “ شکار کے لفظ کے ساتھ ساتھ
مختلف انمٹ بے جوڑ رتصویریں چھنوں میاں کی آنکھوں کے سامنے ابھر آئیں ۔ پھریری لے
کر بولے ” کیا نشانہ تھا نیک بخت کا صبح کی دھند میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں
دیدتا۔قازیں ہڑبڑا کر اٹھی ہیں ۔ پروں کی پھڑ پھڑاحت پہ دھوں سے گولی چلائی اور
قازیںٹپ ٹپ گر رہی ہیں ۔ اب اسی دفعہ کا ذکر ہے صاحب مجھے تو پتہ چلا نہیں کہ ہرنی
کدھر سے اٹھی اور کدھر چلی ۔ بندوق کو تانتے ہوئے بولا ” وہ ہرنی چلی “ میں نے کہا
کہ بہت دور ہے ‘ مگر وہ مانس کہا سنتا تھا دن سے گولی چلا دی۔ ہرنیبیس قدم گری میں
چلی اور پھر لڑکھڑا کے گر پڑی “۔
|