|
پسماندگان
(انتظار حسین)
چھنوں میاں چپ ہوگئے ۔ پھرکچھ سوچتے ہوئے بولے ”
وقت کی بات ہے ۔ بعض وقت منہ سے ایسی آواز نکلتی ہے کہ پوری ہوکر رہتی ہے ۔ شکار سے
واپسی میں کہنے لگا ” چھنوں میاں اپنا یہ آخری شکار تھا ۔اب ہم چلے جائیں گے غریب
سچ مچ چلا گیا “
باقربھائی کے جسم کو آخر ذرا جنبش ہوئی۔ سوچتے ہوئے بولے ” جمعرات کا دن تھا
....وقت کیا تھا ؟ ؟؟؟علی ریاض اورتجمل دونوں بھائی کو تکنے لگے ۔ باقر بھائی اک
ذرا تامل سے ہچکچاتے ہوئے بولے ” ایسے وقت میں جانور کو نہیں مارنا چاہیے “
آہستہ آہستہ اٹھتے قدموں کے افسردہ شور سے ساری بزریا میں ایک خاموشی سی چھا گئی ۔
کالے پنواڑی کی دوکان پہ جو قہقہے بلند ہورہے تھے وہ ایکا ایکی بند ہوگئے ۔ سامنے
کے کوٹھے والی نکئی پہاڑن کے سلسلہ میں شبراتی کے ذہن میں ایک بہت پھڑکتا ہوا فقرہ
آیا تھا ۔ اسے اس اچھے فقرے کا گلا گھونٹ دینا پڑا ۔ سامنے ایک سائیکل سوار گزر رہا
تھا ۔ میت دیکھ کر وہ بھی سائیکل سے اتر پڑا ۔ سمی حلوائی اس وقت موتی چور کے لڈو
بنا رہا تھا ۔ اس کے ہاتھ یک بیک رک گئے اور آنکھوں میں ایک حیرت انگیز افسردگی کی
کیفیت پیدا ہوگئی ۔ ملاپنساری کے اعصابپر مذہب سوارتھا شائد اس لئے وہ موت کی
سنجیدگی سے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی مرعوب ہوجاتا تھا ۔ بڑھیاکو تین پیسے کا دھنیا
تولتے تولے وہ ایک ساتھ اٹھ کر کھڑا ہوا ۔ اور جب تک جنازے کو کاندھا دینے کا ثواب
حاصل نہ کرلیا پلٹ کر نہیں آیا۔ یوں تو اس نے واپس آرتے ہی کام میں لگ جانے کی کوشش
کی تھی ۔ مگر بڑھیاکے بھی آخر کچھ روحانی مطالبات تھے ۔ ملاں کے واپس آتے ہی اس نے
سوال کیا” بھیا رے یوکس کی میت تھی ؟“
ملاں نے ٹھنڈا زسانس بھرتے ہوئے جواب دیا ” خانصاحب ہیں نادے ‘ ان کا لونڈا گذر گیا
۔“
بڑھیا ک یآنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ” ہائے اللہ “
ہیرا سنار ابھی ابھی گلال لینے کی نیت سے دوکان پہ پہنچا تھا ۔ خانصاحب کاسن کر وہ
چونکا ” خانصاحب جی کا پتر ....؟وامر گیسو ؟ بڑی گھٹنا ہوگئی “ پھر ذرا تامل سے
بولا ” واکی دیئی تو بڑی بنی ہوئی تھی کیسے مرگیو؟“
ملاں نے پھرٹھنڈا سانس لیا ” ماہراج موت بڑی بلوان ہے وہ بوڑھے جوان کسی کو نہیں
چھوڑتی “
ہیرا بھی بہک نکلا ” ملاںیوتو سچ کیوے ہے ۔ موت تو جوگیوں اور مہارشیوں کو بھی آئی
اور شکستی مان راجوں مہاراجوںکو بھی آئی ‘راجہ کنش ادہک‘ چتر ہنو تھا پرموت نے داکو
بھی داب ہی لیو “ ۔
ملاں کے لہجے میں اب توانائی پیدا ہوئی ” لالہ رشی منی ہوں یا پیر پیغمبروں موت نے
کسی کومعاف نہیں کیا ۔ سنیس کیاکہ افلطون نے ایک بوٹی تیار کی ۔ اپنے شاگردسے مرتے
وقت کہا کہ مجھے دفن مت کیجیو ۔ یو بوٹی نے چراغ میں ڈال کے میرے سرہانے چالیس دن
تک جلا ئیو چراغ بجھنے نہ پائے ۔ چالیسویں دن میں اٹھ کھڑا ہوںگا ۔ مگر چالیسویں دن
کیا ہوا کہ شاگرد کی آنکھ لگ گئی اور چراغ بجھ گیا افلطون مراکا مرا رہ گیا ۔ تو
لالہ موت بڑی ظالم ہے “
ہیرا کا سرجھک گیا ۔
بڑھیا کے لہجہ میں افسردگی پیدا ہوگئی ” ہاں بابا موت پر کسو کا کیا بس ہے ۔ ”
بڑھیاچپ ہوگئی مگر جب کوئی کچھ نہ ملا تو ایک فقرہ پھراس کی زبان سے نکل گیا ”
خانصاحب مبنی کے دونوں کڑیل جوان گئے ....اس کے غضب سے ڈرتاہی رہے ۔“
ملاں نے بڑے فلسفیانہ انداز مین جواب دیا ” بڑی بیوہ امتحان لیوے ہے ۔“
شبراتی نہ جانے کس لہرمیں کالے کی دوکانسے اٹھ کر ملاں کی دوکان پر آبیٹھا تھا ۔
ملاں کے اس فقرے سے وہ گرما گیا ”ملاں بے یوں تیرا خدا بڑی زہری ہے جو اس کے امتیان
کے اڑنگے میں آگیا۔ اس کا کباڑا گیا ۔“
ملاں کو ٹوٹ کرغصہ تو شاید ہی زندگی میںآیا ہو۔ مگر اس کے لہجہ میں ہلکی سی برہمی
ضرور پیدا ہوگئی کہنے لگا ” بھیا خدا تو دے میرا بھی ہے اور تیرا بھی ہے
۔
|