|
پسماندگان
(انتظار حسین)
شبراتی کا بغاوت کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔ جواب دہ کیا دیتا ۔ اس کا سر جھک
گیا اور اس کی ٹھوڑی کھسک کر گھٹنوں پہ آن ٹکی ۔ ملاں اب شبراتی سے قطعاً بے نیاز
ہوکر فضا میں گھورنے لگا تھا ۔
بڑھیا کنجڑی ، ہیرا ، شبراتی ، ملاں چاروں کے چاروں چند لمحوں کےلئے بالکل گم سم
ہوگئے ۔ اور ان کے چہروں پہ کچھ ایسی کیفیت پیدا ہوگئی جو زندگی کی بے ثباتی اورکسی
بڑی طاقت کے وجودکے احساس سے پیدا ہوتی ہے ۔
آخر بڑھیا کنجڑی چونکی ” لا میرے بیرا دھنیا باندھ دے ۔ میں چلی“
ملاں نے ہڑبڑا کر ترازو اٹھائی اور دھنیا تول کر کاغذمیں باندھنے لگا ۔ اب ہیرا بھی
ہوش میں آگیا تھا ۔اس نے تقاضا کیا ” ملاں موکو بھی گلال باندھ دے “
”کتنے کا دوں؟“
”اکنی کا۔“
” لالہ اکنی کے گلال میں آگیا بینک لگے گی تہوار روز روز تھوڑ اہی آوے ہے “
پہاڑن نکٹی اب بن ٹھن کر اپنے چھجے پہ آکھڑی ہوئی تھی ۔کسی جلے تن کے نے پچھلے برس
اس کی بے مروتی سے بھن کر دن دہاڑے دانتوں سے اس کی ناعک کاٹ لی تھی ۔ یوں اس کے
سیاہ چہرے کی پھبن تو ضرور بگڑ گئی تھی مگر اس سے نہ تو اس کی قہر بھری گات کا جادو
زائل ہوا تھا ۔ اور نہ اس کے ٹھسے میں فرق پڑا تھا ۔ شبراتی نے اسے دیکھ کر زور سے
انگڑائی لی اور اونچی لے میں گانے لگا ۔
یارب نگاہ ناز پہ لینس کیوں نہیں ؟
بنو کو یہ فائدہ تھا کہ خانصا بنی کی دیوار سے اس کی دیوار ملی ہوئی تھی بلکہ اس
مشترک دیوار میں باہمی سمجھوتے سے ایک الٹی سیدھی کھڑکی بھی پھوڑی گئی تھی ۔ آج یہ
کھڑکی بنو کے بہت کام آئی ۔ آنسوؤں کا غلبہ جب بھی کم ہوا اور طبیعت رونے سے جب
بھی ذرا چاٹ ہوئی بنو اس کھڑکی سے نکل کر اپنے گھر پہنچ گئی ۔
حلیمہ بوا نے تو الٹتے وقت اپنے ننھے نواسے کا خیال ہی نہیں کیا تھا ۔ اب اس نے
بھوک بھوک کا غل مچانا شروع کیا ۔ جنازہ اٹھنے کے بعد وہ بھی اس کھڑکی سے نکل بنو
کے گھرجا پہنچیں۔ ان کا مقصد تو صرف اتناتھا کہ بنو کے گھر رات کا کوئی ٹکڑا نوالہ
بچا ہو تو نواسے کو کھلا کر اس کا حلق بند کردیں ۔ وہاں وہ بنو سے باتوں میں لگ
گئیں ۔ حلیمہ بوا کی آنکھوں میں ہاشم خاں کی تصویر باربار پھر جاتی تھی ۔ خانصا
حبنی کی بد نصیبی کا خیال بھی انہیں رہ رہ کر آرہا تھا ۔ بنو پر بی تقریباً کچھ یہی
عالم گزرہا تھا ۔ چنانچہ جب حلیمہ بوا نے یہ کہا ” ڈوبی خانصا حبنی ت جیتے جی مرگئی
“توبنو کی آواز میں بھی درد پیدا ہوگیا بولی ” بد نصیب کی کوکھ اجر گئی دوپوت تھے
دونوں ختم ہوگئے آنگن میں جھاڑو سی دلگئی ۔
حلیمہ بوا کچھ دیر چپ رہیں پھر کھوئے کھوئے سے انداز میں بولیں ۔ حضوں کی قسمت ہی
ایسی ہووے ہے ۔ خانصا حبنی کمبخت کو عہدے راس نہیں آئے ۔یاد نہیں جب خانصاحب کو
مجسٹریٹی ملی تھی تو کیسے کھٹیاپہ پڑے تھے ۔
” ہاں آ ± حاکم ہوتے موئے مرض کی بھینٹ چڑھ گیا عہدہ “
حلیمہ بوا کو خانصا حبنی کے بڑے بیٹے کا واقعہ یاد آگیا ” اس کا بڑا پوت بھی ایسے
ہی جوانی کی بھری بہار میں گیا ۔ اے بی بی یہ سمجھو کہ چاند کی پہلی کو تحصیلداری
کا خط آیاے اور ستائیسویں کو اس غریب کا تار آگیا ۔ وہ بھی آناً فاناً گیا ۔
خانصاحبی کی ساری موتیں ایسے ہی ہوئیں۔“
بنو کسی اور عالم میں کھو گئی تھی ۔ اس کی آنکھیں خلا میں گھور رہی تھیں ۔ اوران
آنکھوں میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ۔ وہ چند لمحے بالکل چپ رہی پھر ٹھنڈا
سانس لیتے ہوئے بولی”با........پالیں پوسیں چھاتی پہ سلاسلا کے بڑا کریں اور پھر
قبر میں سلائی آئیں غضب ہے ۔“
بنو پھر اس عالم میں کھو گئی ۔ حلیمہ بوا بھی کچھ متاثر ہوئیں اب وہ بھی چپ تھیں
۔
|