|
پسماندگان
(انتظار حسین)
یہ چار دیواری تو پست ہی تھی۔ لیکن اس کے پھاٹک کا آہنی کٹہرہ خاصا بلند تھا اور اس
سے ایک ایسا وقار ٹپکتا تھا جواس قسم کی عمارتوں کے دروازوں سے مخصوص ہے ۔ مگر یہ
آہنی کٹہرہ عمارت کی سب سے بلندچیز نہیں تھی ۔ اس دروازے میں دو مینار بھی تو شامل
تھے جوآہنی کٹہرے سے کہیں بلند تھے ۔ الگ بات ہے کہ اس کھلی فضا میں وہ دور سے پست
ہی نظر آتے تھے اس کھلی فضا میں ایک وسیع و عریض چار دیواری کے ساتھ ان دو میناروں
کو دیکھ کر کچھ اس قسم کی کیفیت گزرتی تھی جسے بعض لوگ کوئی صحیح لفظ موجود نہ ہونے
کی وجہ سے حساس تنہائی کہنے لگے ۔
آہنی دروازے کے عین سامنے ایک پکی قبر تھی جوزمین کی سطح سے بالکل ہموار تھی ، باقر
بھائی کو آج ہی نہیں اس سے پہلے بھی اکثرمرتبہ اس قبر پہرشک ہوا تھا کہ ہر سال دلدل
کی ناپیں اور ماتمیوں کے قدم دونوں اسے مس کرتے ہیں ۔ یہ تو خیر سب جانتے تھے کہ یہ
قبر مولانا حیدر امام کی تھی اور ان کے زہد کا احترام کرتے ہوئے ہی انہیں مناسب
مقام پردفن کیا گیا تھا ۔ مگر علی ریاض اس شعر کو پڑھنے کی کوشش کررہا تھا جو اس
قبر پر نقش تھا ۔ پہلا مصرعہ تو صاف تھا ۔بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ!
لیکن دوسرے مصرعہ کے آخری لفظ بالکل مٹ گئے تھے ۔ ہمیں سوگئے داستاں .... ....علی
ریاض نے بہت بہت سرمارا مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا آخر باقر بھائی نے اس معمہ
کو حل کیا کچھ تو انہیں مٹے ہوئے لفظ پڑھنے کی اٹکل تھی پھریوں بھی انہوں نے مذہبی
کتابوں کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا وقت شاعری کے مطالعہ پر بھی صرف کیا تھا ۔ آخربہت سوچ
سمجھ کر انہوںنے دوسرا مصرعہ پڑھا ۔ ہمیں سوگئے داستان سنتے سنتے ۔ علی ریاض نے ہی
نہیں تجمل اور چھنوں میاں نے بھی شعر کی داددی علی ریاض نے بڑے اہتمام سے اپنے لہجہ
میں افسردگی کارنگ پیدا کیا اور شعر پڑھنے لگا ۔
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سوگئے داستان سنتے سنتے
”واہ“چھنوں میاں کے منہ سے بے ساختہ نکلا ”کس کا شعر ہے “
علی ریاض تھوڑا سا چکرایا پھر سوچتے ہوئے بولا ”انیس کامعلوم ہوتا ہے ؟کیوں باقر
بھائی ؟“
باقر بھائی نے جواب دیا ”بھئی شعر تو منہ سے بول رہا ہے کہ میں میر انیس کا ہوں “
”واہ واہ میرانیس بھی کیا کیا شعر کہہ گئے ہیں “چھنوں میاں نے پھر داددی ۔
”باقربھائی “علی ریاض کا لہجہ یکایکی بدلا ”سنتے ہیں کہ میرا نیس شعر خود نہیں کہتے
تھے “۔
چھنوں میاں کا چہرہ سرخ پڑگیا تڑخکربولے ”پھرکیا جنید خاں لکھ کے دے جاتے تھے ۔“
علی ریاض نے جلدی سے اپنی بات کی تشریح کی ”ابھی ہم نے تو یہ سنا ہے کہ محرم کے
دنوں میں میرانیس جب سوکے اٹھتے تھے تو ان کے سرہانے امام حسین علیہ السلام کا لکھا
ہوا مرعیہ رکھا ہوتا تھا “۔
چھنوں میاں کے چہرے پہ سرخی جس تیزی سے آئی تھی اسی تیزی سے غائب ہوگئی ہاں اسی
تیزی کے ساتھ ان کی آنکھوں میں حیرت کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ۔ ”اچھا ؟“
تجمل نے براہ راست باقر بھائی سے سوال کیا ”کیوں بھائی ۔ سچ ہے یہ ؟“
باقر بھائی نا معلوم کس قماش کی آدمی تھے کسی بات کی نہ تو زورشور سے تائید کرتے
تھے اور نہ زورشورسے تردید کرتے تھے ۔ ان کے جواب میںہاں اور نہیں دونوں پہلو شامل
ہوتے تھے ۔ کہنے لگے ”ہاں لکھنؤ جاکے کسی سے پوچھ او اور یہ واقعہ تو لکھنؤ کے
بچے بچے کی زبان پہ ہے ........“
تجمل نے بے صبرے پن سے پوچھا ”کیا واقعہ ؟“
یہی کہ ایک دفعہ میر انیس اور مرزا دبیر میں بحث ہوگئی کہ دیکھیں مولا کو کس کا
مرعیہ پسند ہے ۔ دونوں نے مرعیہ لکھا اور اپنا اپنا مرعیہ بڑے امام باڑے میں علموں
کے پاس رکھیائے صبح کو جوجاکے دیکھیں ہیں تو میر انیس کا مرعیہ تو ویسا ہی لکھا ہے
اور مرزا دبیر کے مرتے پہ پنجے کا نشان۔
|