|
پسماندگان
(انتظار حسین)
پنجے کا نشان ؟ ”تجمل اورچھنوں میاں دونوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
علی ریاض نے بڑے اعتماد سے کہا ”ہاں پنجے کا نشان ۔بس جناب میرانیس کا توبرا حال
ہوا سمجھے کہ مولا کی شان میں کوئی گستاخی ہوگئی ۔ پھر رات ہوئی ذرا آنکھ جھپکی
ہوگی کہ گھوڑے کی ناپوں کی آواز آئی ۔ میرا نیس چونک پڑے“علی ریاض رکا اور تجمل اور
میاں دونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے باری باری دیکھا تجمل اور چھنوں میاں دونوں
حیرت سے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہے تھے اورتو اورباقر بھائی کی بے نیازی میں بھی
فرق آچلا تھا ۔ علی ریاض پھربولا”گھوڑے کے ناپوں کی آواز پاس آتی گئی ۔ بس سمجھو کہ
سارا امام باڑہ گونجنے لگا ۔ میر انیس کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سفید گھوڑا ہے اس پہ
ایک بزرگ سوار ہیں ۔ چہرے پہ سیاہ نقاب پڑی ہوئی ، کمرمیں تلوار ۔ میر انیس کے
برابر آئے اور ان کے سرپہ ہاتھ رکھ کر بولے ” کہ انیس تو میری اولا د ہے ۔ دبیر
میرا عاشق ہے اس کا دل ٹوٹ جاتا “ .... ....میرانیس کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔
آنکھ کھلی تو نہ گھوڑا نہ گھوڑاسوار۔ تڑکا نکل آیا تھا ۔ مسجد میں اذان ہورہی تھی
۔“
علی ریاض کی داستان ختم ہوچکی تجھی ۔ تجمل اور چھنوں میاں ایک ڈیڑھ منٹ تک علی ریاض
ایک ڈیڑھ منٹ تک علی ریاض کو تکتے رہے پھران کی نگاہیں باقر بھائی پہ جم گئیں باقر
بھائی نے اک ذرا لاپرواہی سے کھٹکار کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس داستان سے
کچھ ایسے زیادہ متاثر نہیں ہیں ۔ پھر آپ ہی آپ کہنے لگے ” مگر اس روایت سے تو یہی
ثابت ہوتا ہے کہ انیس خود مرعیہ لکھتے تھے ۔“
” مگر صاب “ باقر بھائی اب قمچی کے اشارے کے بغیر چل رہے تھے ” انیس کی شاعری واقعی
انسانی کلام نہیں ہے ........معجزہ ہے “ ۔ باقر بھائی چند لمحوں کےلئے بالکل خاموش
رہے او رپھرآپ ہی آپ بڑبڑانے لگے ۔
” گودی ہے کبھی ماں کی کبھی قبر کا آغوش
سرگرم سخن ہے کبھی انسان کبھی خاموش
گل پیرہن اکثر نظر آئے ہیں کفن پوش
گہہ سخت ہے اور گاہ جنازہ بہ سردوش “
باقر بھائی اک ذرا رکے ان کی آواز ڈوبنے لگی تھی ” ہاکیاشعر ہے “۔
اک طور پہ دیکھانہ جواں کونہ مسن کو
شب کو تو چھپر کھٹ میں ہیں تابوت میں دن کو
باقر بھائی چپ ہوگئے اب وہ پھربت بن گئے تھے ، علی ریاض ، تجمل اور چھنوں میاں یہ
بھی سکتہ چھاگیا تھا ۔ چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ البتہ آس پاس کے نیم
اوراملی کے درختوں میں دھیما دھیما شور ضرور برپا تھا ۔ ہوا بہت تیز تو نہیں تھی ۔
اسے موسم کا اثر کئے کہ ہوا کاکوئی جھونکا اگر دبے پاؤں بھی آتا تو زردپتوں کو
بہانہ مل جاتا اور ٹہنیوں سے بچھڑ کر فضا میں تیرنے لگتے ۔ بہتی ہوئی ریت کے ریلے
میں یم کے بہت سے ننھے ننھے زردپتے بھی آگئے تھے ۔ اور قبر پہ بڑے قرینے سے بچھ گئے
تھے ۔
اس نیم بیدار نیم خوابیدہ فضا میں نیم کے درختوں سے لے کر کربلا کی دیواروں کی
منڈیروں تک ہرچیز کچھ اجڑی اجڑی سے نظر آرہی تھی اورعلی ریاض ، تجمل ، چھنوں میاں
گم متھان بنے بیٹھے تھے اورباقربھائی پر مراقبہ کی کیفیت طاری تھی ۔
آخر چھنوں میاں نے اس سکوت کو توڑاانہوں نے بڑے مرے ہوئے انداز میں انگڑائی لی”بھئی
دھوپ میں چٹخی آگئی یہاں سے اٹھو“۔
چھنوں میاںکھڑے ہوئے ۔ دوسرے بھی اٹھ کھڑے ہوئے چھنوں میاں نے اس سلسلہ میں مشورے
یا اطلاع کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ شاید جوانستہ طور پران کے قدم بیریوں کی طرف اٹھ
گئے تھے یہ بیریاں اس سال اللہ دئے نے لے رکھی تھیں اس نے اس برگزیدہ قافلہ کو
بیریوں کی طرف آتے دیکھا تو بے تحاشا پکا ہوا تھا ۔ قریب پہنچ کر ا س نے چھوٹتے ہی
سلام کیا ”میاںسلام “۔۔
|