|
پسماندگان
(انتظار حسین)
”سلام “صرف چھنوں میاں نے سلام کاجواب دینا ضروری سمجھا ۔
بیریوں میں داخل ہوتے ہوئے چھنوں میاں کہنے لگے ” صاب موسم اب بدل ہی گیا۔دھوپ میں
اچھی خاصی تیزی آگئی ہے ۔“
”ہاں“تجمل بولا ” جاڑے تو اب گئے ہی سمجھو میں ہولی کے انتظار میں ہوں ہولی چلی اور
میں نے باہرسوناشروع کیا “۔
چھنوں میاں اللہ دئے کی طرف متوجہ ہوگئے ” ابے اللہ دئے کب جل رہی ہے ہولی ؟“
” اگلے شکر کو جل جاوے گی جی ۔ بس چھنوں میاں بیر بھی اگلے شکر تک کے ہیں ہولی کے
بعد ان میں کنڈارپڑ جاوے گی “ پھرذرا رک کر بولا ”میاں بیرکھالو“
چھنوںمیاںبیزار ہوکربولے ”میرے یاردم تو لینے دے “
اللہ دیا چپ ہوگیا ۔ اس نے اپنی رفتار دھیمی کردی اور پیچھے تجمل کے برابربرابر
ہولیا ۔ کچھ دیروہ خاموش چلتا رہا پھرآہستہ سے بولا ”تجمل میاں کتنی دیر ہے دفن
ہونے میں ؟“
”آدھ گھنٹے سے کم کیا لگے گا “
اللہ دیاے خاموش چلتا رہا پھرذرا ہچکچا کربولا ” تجمل میاں جو ہونی ہووے ہے وے ہو
کے ہی رہوے ہے ( میرا ماتھا وسی وخت ٹھنکا تھا ۔ میں نے ہاشم میاں کو منع بھی کیا
پر ونہوں نے میری سنی نہیں “۔
علی ریاض چپ چاپ پیچھے چلے آرہے تھے ۔ان فقروں پر ان کے کان کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے
چال تیز کردی اور پاس آکر بولے ”کیا بات ؟“
”امی میں دس روز اکے شکار کی بات کررہا ہوں “ اللہ کی آواز اب ذرا بلند ہو گئی تھی
”چھنوں میاں تو ساتھ ۔ پوچھ لو میں نے منع کیا تھا یا نہیں ۔ سالا لیل کنٹھ رستہ
کاٹ گیا ۔ میں نے کہا کہ ہاشم میاں لوٹ چل پھر ونہوں نے مجھے ڈپٹ دیا ۔ جب ہرنی
اٹھی تو میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا “ اللہ دیا چپ ہوا اوررجب وہ پھر بولا تو اس کی
آواز نے تقریبا سرگوشی کا رنگ اختیار کرلیا تھا ۔ ” اجی دس کے ہرن کو پچھلے مہینے
ہاشم میاں نے مارا تھا ۔ میرا دل اندر سے یو کیوے کہ اللہ دئے آج کچھ ہووے گا ۔میں
نے کہا کہ ہاشم میاں گولی مت چلاؤ ۔پرجی ونہوں نے مجھے پھر جھڑک دیا “
اللہ دیا چپ ہوگیا بیریوں کے پتے خاموش تھے ہوا شاید بہت دھیمی ہوگئی تھی ۔ صرف
قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی ۔ اللہ دیے کی جھونپڑی کے قریب پہنچ کر سب لوگ
چارپائی پر بیٹھ گئے ۔
اللہ دئے نے حقہ بھی تازہ کرکے رکھ دیا تھا چھنوں میاں نے دوگھونٹ خاموشی سے لئے ۔
پھر آپ ہی آپ کہنے لگے ۔ بھئی اب کچھ ہی کہہ لومگر ہم تو بچپن سے شکار کھیلتے آرہے
ہیں ہم نے تو کبھی شگن و گن کی پروا نہیں کی “۔
علی ریاض بولے ” بھائی یہ نئی روشنی کا زمانہ ہے ۔ آج ہم کہتے ہیں کہ صاحب بڑے
بوڑھے لوگ بڑے دقیانوی تھے ۔ تو ہم پرست تھے ............مگر صاحب ان کا کہا ہوا آج
بھی پتھر کی لکیرہے “۔
تجمل نے بے ساختہ ٹکڑا لگاےا”یہ واقعہ ہے“۔
علی ریاض کی بات جاندار تھی ۔چھنوں میاں کو مجبوراً باقر بھائی سے رجوع کرنا پڑا
”باقر بھائی آپ کا کیاخیال ہے؟ “
باقر بھائی پھر اپنے اسی مذبذب سے لہجہ میں بولے ” اللہ بہتر جانتا ہے کیا بھید ہے
........ویسے ہم نے بہت سی رسمیں ہندوؤں سے لی ہیں اسلام تو شگون و گون کا قائل
ہے نہیں “
چھنوں میاں کی بات کی تائید ہوئی تھی ۔ پھر بھی انہوںاس جواب پہ کچھ بے اطمینانی سی
محسوس کی ۔
علی ریاض چند لمحوں تک بالکل گم سم رہا پھر بڑبڑانے لگا ”اس کے بھید وہی جانے عجب
طلسمات ہے یہ دنیا
“۔
|