|
پسماندگان
(انتظار حسین)
باقر بھائی کی نیت جواب دینے کی نہیں تھی بس یونہی بیٹھے بیٹھے کہنے لگے ” میاں ہم
تویہ جانتے ہیں کہ تقدیر میں جو لکھ گیا وہ مٹ نہیں سکتا “۔
باقر بھائی پھر کسی دوسری دنیا میں جاپہنچے ، علی ریاض ، تجمل اور چھنوں میاں گم
متھان بنے بیٹھے تھے ۔ ہوا کا تنفس بہت دھیما ہوگیا تھا ۔ مگر بیریوں کے پتوںمیں
ایک دبا دبا سا شور تھا م کچھ ایسا شور کہ بچے چوری چھپے کچھ کتر کتر کر کھا رہے
ہیں اللہ دئے نے جلدی سے گوپھیا اٹھائی اور اس میں اینٹ رکھ کرآگے چلا بیریوں کے
بیچوں بیچ درختوں کے گھنے سائے میں پہنچ کر اس نے گوبیا گھمائی اور ساتھ میں حلق سے
للگانے کی آواز بھی نکالی بیریوں کے پتوں میں یکایک ایک ہنگامہ پیدا ہوا اور طوطوں
کی ایک ڈار چیختی چلاتی تیزی سے پتوں کی تہ سے اٹھی اور فضا میں ایک الٹی سیدھی سبز
دھاری بن کر پھیل گئی ۔ گوپھیا نے دوہرا طلسم پیدا کیا اس کے اشارے سے سبزطوطے
آسمان کی طرف اٹھے اورسبز سرخ بیر زمین پہ گرے ۔اللہ دئے نے سرخ سرخ بیریوں سے گود
بھری اور اسے مہمانوں کے سامنے جاکر خالی کر دیا کہنے لگا ” میاں پونڈا بیر ہے پکے
پکے بین کے لایا ہوں ۔ ذرا یوں چکھ کے دیکھو“۔
باقر بھائی نے کسی قسم کا اظہار خیال نہیں کیا ہاں علی ریاض نے ان کو کھٹ مٹھے ہونے
کی تعریف کی ۔ چھنوں میاں کا خیال تھا اگر پسا ہوا نمک ہوتا تو لطف آجاتا تجمل بیر
کھاتے کھاتے پوچھنے لگا ۔ ” ابے اللہ دئے بیریوں سے توتونے اچھا کمالیا ہوگا ؟“
اللہ دیا بر افسردہ سے لہجے میںبولا ” اجی تجمل میاں ان بیروں سے کیا بینک لگے گی ۔
اب کی برس بڑا گھاٹا آیا ہے ۔آموں کی فصل سوکھی نکل گئی ساری رقم ڈوب گئی ۔
سنگھاڑوں کی بیل لی تھی دسے جونک لگ گئی ۔ تجمل میاں بس اپنی توبدھیا بیٹھ گئی ۔“
سنگھاڑوں کی بیل سے اللہ دیا کا ذہن کسی اورطرف منتقل ہوگیا ۔ اس کارخ چھنوں میاں
کی طرف ہوگیا ۔ ” اجی چھنوں میاں وے پوکھر تھی نہیں اپنی دس پہ آج کل مرغابی بہت گر
رئی اے “۔
چھنوں میاں چونکے ”اچھا “
”ہاں میاں“
”دیکھ لیں کسی دن “
اللہ دیا بولا ” تو چھنوں میاں اس سالے جانور کا بھروسہ نہیں اے بس چلنا ہے تو جلدی
چلے چلو کسی دن پوہ پھٹنے سے پہلے تاروں کی چھاؤں می چلو تڑکے تڑکے گھر پہ آن
لگیں گے “۔
چھنوں میاں جواب دینے ہی والے تھے کہ علی ریاض بیچ میں بول اٹھا ۔ اس کی آنکھیں دور
قبرستان کی طرف دیکھ رہی تھیں ۔اور وہ کہہ رہا تھا ”یار لوگ تو واپس جارہے ہیں حد
ہوگئی ہم یہی بیٹھے رہ گئے ،،۔
چھنوں میاں ، علی ریاض ، تجمل ، باقر بھائی چاروں اٹھ کھڑے ہوئے ۔ بیریوں سے
باہرنکلتے ہوئے اللہ دئے نے پھرچھنوںمیاں کوٹھوکا ”تو چھنوں میاں کب چل رئے او؟“
چھنوں میاں دل ہی دل میں حساب لگاتے ہوئے بولے ”کل ؟ کل نہیں ........پر سوں نتیجہ
ہے ۔ ہاں اترسوں آجائیو ۔ مگر دن چڑھے سے پہلے پہلے واپس آنا ہے “
اللہ دیا گرماکر بولا ” دن چڑہے ، ؟ کیا کہہ رئے او چھنوں میاں ۔ اجی ۔ فجر کی نماز
محبت میں آگے پڑھیں گے“۔
|