|
شکوہ شکایت
(منشی پریم چند)
زندگی کا بڑا حصّہ تو اسی گھر میں گزر گیا مگر کبھی آرام نہ نصیب ہوا۔ میرے شوہر
دُنیا کی نگاہ میں بڑے نیک اور خوش خلق اور فیاض اور بیدار مغز ہوں گے۔ لیکن جس پر
گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ دُنیا کو تو ان لوگوں کی تعریف میں مزا آتا ہے جو اپنے گھر
کو جہنم میں ڈال رہے ہوں اور غیروں کے پیچھے اپنے آپ کو تباہ کیے ڈالتے ہوں۔ جو گھر
والوں کے لیے مرتا ہے اس کی تعریف دُنیا والے نہیں کرتے۔ وہ تو ان کی نگاہ میں خود
غرض ہے، بخیل ہے، تنگ دل ہے، مغرور ہے، کور باطن ہے۔ اسی طرح جو لوگ باہر والوں کے
لیے مرتے ہیں انکی تعریف گھر والے کیوں کرنے لگے۔ اب ان ہی کو دیکھو....صبح سے شام
تک مجھے پریشان کیا کرتے ہیں۔ باہر سے کوئی چیز منگواؤ تو اسی دُکان سے لائیں گے
جہاں کوئی گاہک بھول کر بھی نہ جاتا ہے۔ ایسی دُکانوں پر نہ چیز اچھی ملتی ہے نہ
وزن ٹھیک ہوتا ہے۔ نہ دام ہی مناسب۔ یہ نقائص نہ ہوتے تو وہ دُکان بدنام ہی کیوں
ہوتی۔ انہیں ایسی ہی دُکانوں سے سودا سلف خریدنے کا مرض ہے۔ بارہا کہا کسی چلتی
ہوئی دُکان سے چیزیں لایا کرو وہاں مال زیادہ کھپتا ہے۔ اس لیے تازہ مال آتارہتا
ہے۔ مگر نہیں ٹٹ پونجیوںسے ان کو ہمدردی ہے اور وہ انہیں اُلٹے استرے سے مونڈتے
ہیں۔ گیہوں لائیں گے تو سارے بازار سے خراب گھنا ہوا، چاول ایسا موٹا کہ بیل بھی نہ
پوچھے۔ دال میں کنکر بھرے ہوئے۔ منوں لکڑی جلا ڈالو، کیا مجال کہ گلے۔ گھی لائیں گے
تو آدھوں آدھ تیل، اور نرخ اصلی گھی سے ایک چھٹانک کم۔ تیل لائیں گے تو ملاوٹ کا۔
بالوں میں ڈالو تو چیکٹ جائیں، مگر دام دے آئیں گے اعلیٰ درجے کے چنبیلی کے تیل کے۔
چلتی ہوئی دُکان پر جاتے تو جیسے انہیں ڈر لگتا ہے۔ شاید اونچی دُکان اور پھیکے
پکوان کے قائل ہیں۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ نیچی دُکان پر سڑے پکوان ہی ملتے ہیں۔
ایک دن کی بات ہو تو برداشت کر لی جائے۔ روز روز کی یہ مصیبت برداشت نہیں ہوتی ہیں۔
کہتی ہوں آخر ٹٹ پونجیوں کی دُکان پر جاتے ہی کیوں ہیں۔ کیا ان کی پرورش کا ٹھیکہ
تم ہی نے لے لیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں مجھے دیکھ کر بلانے لگتے ہیں۔ خوب! ذرا انہیں
بلا لیا اور خوشامد کے دو چار الفاظ سنا دیے، بس آپ کا مزاج آسمان پر جا پہنچا۔ پھر
انہیں سدھ نہیں رہتی کہ وہ کوڑا کرکٹ باندھ رہا ہے یا کیا۔ پوچھتی ہوں تم اس راستے
سے جاتے ہیں کیو ں ہو؟ کیوں کسی دوسرے راستے سے نہیں جاتے؟ ایسے اٹھائی گیروں کو
منہ ہی کیوں لگاتے ہو؟ اس کا کوئی جواب نہیں۔ ایک خموشی سو بلاؤں کو ٹالتی ہے۔
ایک بار ایک زیور بنوانا تھا۔ میں تو حضرت کو جانتی تھی۔ ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت
نہ سمجھی۔ ایک پہچان کے سنار کو بلا رہی تھی۔ اتفاق سے آپ بھی موجود تھے۔ بولے یہ
فرقہ بالکل اعتبار کے قابل نہیں دھوکا کھاؤ گی۔ میں ایک سنار کو جانتا ہوں۔ میرے
ساتھ کا پڑھا ہوا ہے۔ برسوں ساتھ ساتھ کھیلے ہیں۔ میرے ساتھ چالبازی نہیں کر سکتا۔
میں نے سمجھا جب ان کا دوست ہے اور وہ بھی بچپن کا ، تو کہاں تک دوستی کا حق نہ
نبھائے گا۔ سونے کا ایک زیور اور پچاس روپے ان کے حوالے کیے ۔ اور اس بھلے آدمی نے
وہ چیز اور روپے نہ جانے کس بے ایمان کو دے دیے کہ برسوں کے پیہم تقاضوں کے بعد جب
چیز بن کر آئی تو روپے میں آٹھ آنے تانبا، اور اتنی بدنما کہ دیکھ کر گھن آتی تھی۔
برسوں کاارمان خاک میں مل گیا۔رو پیٹ کر بیٹھ رہی۔ ایسے ایسے وفادار تو ان کے دوست
ہیں جنہیں دوست کی گردن پر چھری پھیرنے میں عار نہیں۔
|