|
شکوہ شکایت
(منشی پریم چند)
ان کی دوستی بھی انہیں لوگوں
سے ہے جو زمانہ بھر کے فاقہ مست، قلانچ، بے سرو سامان ہیں، جن کا پیشہ ہی ان جیسے
آنکھ کے اندھوں سے دوستی کرنا ہے۔ روز ایک نہ ایک صاحب مانگنے کے لیے سرپر سوار
رہتے ہیں اور بلا لئے گلا نہیں چھوڑتے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے روپے ادا
کیے ہوں۔ آدمی ایک بار کھو کر سیکھتا ہے، دو بار کھو کر سیکھتا ہے، مگر یہ بھلے
مانس ہزار بار کھو کر بھی نہیں سیکھتے۔ جب کہتی ہوں روپے تو دے دیے اب مانگ کیوں
نہیں لاتے۔ کیامرگئے تمہارے دوست؟ تو بس بغلیں جھانک کر رہ جاتے۔ آپ سے دوستوں کو
سوکھا جواب نہیں دیا جاتا۔ خیر سوکھا جواب نہ دو، میں یہ بھی نہیں کہتی کہ دوستوں
سے بے مروّتی کرو۔ مگر ٹال تو سکتے ہیں۔ کیا بہانے نہیں بنا سکتے؟ مگر آپ انکار
نہیں کر سکتے۔ کسی دوست نے کچھ طلب کیا اور آپ کے سر پر بوجھ پڑا بے چارے کیسے
انکار کریں۔ آخر لوگ جان جائیں گے یہ حضرت بھی فاقہ مست ہیں۔ دُنیا انہیں امیر
سمجھتی ہے چاہے میرے زیور ہی کیوں نہ گروی رکھنے پڑیں۔سچ کہتی ہوں بعض اوقات ایک
ایک پیسے کی تنگی ہو جاتی ہے اور اس بھلے آدمی کو روپے جیسے گھرمیں کاٹتے ہیں۔ جب
تک روپے کے وارے نیارے نہ کر لے اسے کسی پہلو قرار نہیں۔ ان کے کرتوت کہاں تک کہوں۔
میرا تو ناک میں دم آگیا۔ایک نہ ایک مہمان روز بلائے بے درماں کی طرح سر پر سوار ۔
نہ جانے کہاں کے بے فکرے ان کے دوست ہیں۔ کوئی کہیں سے آکر مرتا ہے، کوئی کہیں سے۔
گھر کیا ہے اپاہجوں کو اڈہ ہے۔ ذرا س گھر، مشکل سے دو تو چارپائیاں، اوڑھنا بچھونا
بھی بافراط نہیں مگر آپ ہیں کہ دوستوں کو دینے کے لیے تیار۔ آپ تو مہمان کے ساتھ
لیٹیں گے۔ اس لیے انہیں چارپائی بھی چاہیے۔ اوڑھنا بچھونا بھی چاہیے ورنہ گھر کا
پردہ کھل جائے، جاتی ہے تومیرے اور بچوں کے سر۔ زمین پر پڑے سکڑ کر رات کاٹتے ہیں،
گرمیوں میں تو خیر مضائقہ نہیں لیکن جاڑوں میں تو بس قیامت ہی آجاتی ہے۔ گرمیوں میں
بھی کھلی چھت پر تو مہمانوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ اب میں بچوں کو لیے قفس میں پڑی
تڑپا کروں۔ اتنی سمجھ بھی نہیں کہ جب گھر کی یہ حالت ہے تو کیوں ایسوں کو مہمان
بنائیں جن کے پاس کپڑے لتے تک نہیں۔خدا کے فضل سے ان کے سبھی دوست ایسے ہی ہیں۔ ایک
بھی خدا کا بندہ ایسا نہیں، جو ضرورت کے وقت ان کے دھیلے سے بھی مدد کر سکے۔ دو ایک
بار حضرت کو اس کا تجربہ اور بے حد تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ مگر اس مردِ خدا نے تو
آنکھیں نہ کھولنے کی قسم کھا لی ہے۔ ایسے ہی ناداروں سے انکی پٹتی ہے، ایسے ایسے
لوگوں سے آپ کی دوستی ہے کہ کہتے شرم آتی ہے۔ جسے کوئی اپنے دروازے پر کھڑا بھی نہ
ہونے دے، وہ آپ کا دوست ہے۔ شہر میں اتنے امیر کبیر ہیں، آپ کا کسی سے ربط ضبط
نہیں، کسی کے پاس نہیں جاتے۔ امراءمغرور ہیں، مدمغ ہیں، خوشامد پسند ہیں، ان کے پاس
کیسے جائیں، دوستی گانٹھیں گے ایسوں سے جن کے گھر میں کھانے کو بھی نہیں۔
ایک بار ہمارا خدمت گار چلا گیا اور کئی دن دوسرا خدمت گار نہ ملا۔ میں کسی ہوشیار
اور سلیقہ مند نوکر کی تلاش میں تھی مگر بابو صاحب کو جلد سے جلد کوئی آدمی رکھ
لینے کی فکر سوار ہوئی۔ گھر کے سارے کام بدستور چل رہے تھے مگر آپ کو معلوم ہو رہا
تھا کہ گاڑی رکی ہوئی ہے۔ ایک دن جانے کہاں سے ایک بانگڑو کو پکڑ لائے۔ اس کی صورت
کہے دیتی تھی کہ کوئی جانگلو ہے مگر آپ نے اس کی ایسی ایسی تعریفیں کیں کہ کیا
کہوں! بڑا فرماں بردار ہے، پرلے سرے کا ایمان دار ، بلا کا محنتی، غضب کا سلیقہ
شعار اور انتہا درجہ کا با تمیز۔ خیر میں نے رکھ لیا۔ میں بار بار کیوں کر ان کی
باتوں میں آ جاتی ہیوں، مجھے خود تعجب ہے۔ یہ آدمی صرف شکل سے آدمی تھا، آدمیت کی
کوئی علامت اس میں نہ تھی۔ کسی کام کی تمیز نہیں۔ بے ایمان نہ تھا مگر احمق اوّل
نمبر کا۔ بے ایمان ہوتا تو کم سے کم اتنی تسکین تو ہوتی کہ خود کھاتا ہے۔ کم بخت
دُکان داروں کی فطرتوں کا شکار ہو جاتا تھا اسے دس تک گنتی بھی نہ آتی تھی۔ ایک
روپیہ دے کر بازار بھیجوں تو شام تک حساب نہ سمجھا سکے۔ غصہ پی پی کر رہ جاتی تھی۔
خون جوش کھانے لگتا تھا کہ سور کے کان اکھاڑ لوں۔ مگر ان حضرت کو کبھی اسے کچھ کہتے
نہیں دیکھا۔ آپ نہا کر دھوتی چھانٹ رہے ہیں اور و ہ دور بیٹھا تماشہ دیکھ رہا
ہے۔میرا خون کھولنے لگتا، لیکن انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ جب میرے ڈانٹنے پر
دھوتی چھانٹنے جاتا بھی تو آپ اسے قریب نہ آنے دیتے۔اس کے عیبوں کو ہنر بنا کر
دکھایا کرتے تھے اور اس کوشش میں کامیاب نہ ہوتے تو ان عیوب پر پردہ ڈال دیتے تھے۔
کم بخت کو جھاڑو دینے کی بھی تمیز نہ تھی۔ مردانہ کمرہ ہی تو سارے گھر میں ڈھنگ کا
ایک کمرہ ہے، اس میں جھاڑو دیتا تو ادھر کی چیز اُدھر، اوپر کی نیچے گویا سارے کمرے
میں زلزہ آ گیا ہو۔
|