|
شکوہ شکایت
(منشی پریم چند)
اور گرد کا یہ عالم کو سانس لینی مشکل مگر آپ کمرے میں اطمینان
سے بیٹھے رہتے۔ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ ایک دن میں نے اسے خوب ڈانٹا اور کہہ دیا،
”اگر کل سے تو نے سلیقے سے جھاڑو نہ دی تو کھڑے کھڑے نکال دوں گی۔“
سویرے سو کر اٹھتی تو دیکھتی ہوں کمرے میں جھاڑو دی ہوئی ہے۔ ہر ایک چیز قرینے سے
رکھی ہے۔ گردو غبار کا کہیں نام نہیں۔ آپ نے فوراً ہنس کر کہا، ”دیکھتی کیا ہو، آج
گھورے نے بڑے سویرے جھاڑو دی ہے۔ میں نے سمجھا دیا، تم طریقہ تو بتلاتی نہیں ہو،
الٹی ڈانٹنے لگتی ہو۔“ لیجئے صاحب! یہ بھی میری ہی خطا تھی۔ خیر، میں نے سمجھا اس
نالائق نے کم سے کم ایک کام تو سلیقے کے ساتھ کیا۔ اب روز کمرہ صاف ستھرا ملتا، اور
میری نگاہوں میں گھورے کی کچھ وقعت ہونے لگی، اتفاق کی بات ایک دن میں ذرا معمول سے
سویرے اٹھ بیٹھی اور کمرے میں آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ گھورے دروازے پر کھڑا ہے
اور خود بدولت بڑی تن دہی سے جھاڑو دے رہے ہیں۔ مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ ان کے ہاتھ
سے جھاڑو چھین لی اور گھورے کے سر پر پٹک دی۔ حرام خور کو اسی وقت دھتکار بتائی۔آپ
فرمانے لگے، اس کی تنخواہ تو بیباق کر دو۔ خوب ! ایک تو کام نہ کرے ، دوسرے آنکھیں
دکھائے۔ اس پر تنخواہ بھی دے دوں۔ میں نے ایک کوڑی بھی نہ دی۔ ایک کرتا دیا تھا وہ
بھی چھین لیا۔ اس پر حضرت کئی دن مجھ سے روٹھے رہے۔ گھر چھوڑ کر بھاگے جا رہے تھے
بڑی مشکلوں سے رکے۔
ایک دن مہتر نے اتارے کپڑوں کا سوال کیا۔ اس بے کاری کے زمانے میں فالتو کپڑے کس کے
گھر میں ہیں۔ میرے یہاں تو ضروری کپڑے بھی نہیں۔ حضرت ہی کا توشہ خانہ ایک بغچی میں
آجائے گا جو ڈاک کے پارسل سے کہیں بھیجا جا سکتا ہے۔ پھر اس سال سردی کے موسم میں
نئے کپڑے بنوانے کی نوبت بھی نہ آئی تھی۔میں نے مہتر کو صاف جواب دے دیا۔ سردی کی
شدت تھی اس کا مجھے خود احساس تھا۔ غریبوں پر کیا گزرتی ہے، اس کا بھی علم تھا۔
لیکن میرے یا آپ کے پاس افسوس کے سوا اور کیا علاج ہے۔ جب رؤسا اور امراءکے پاس
ایک مال گاڑی کپڑوں سے بھری ہوئی ہے تو پھر غرباءکیوں نہ برہنگی کا عذاب جھیلیں۔
خیر! میں نے تو اسے جواب دے دیا آپ نے کیا کیا، اپنا کوٹ اُتار کر اسکے حوالے کر
دیا۔ میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ حضرت کے پاس یہی ایک کوٹ تھا۔ یہ خیال نہ ہوا کہ
پہنیں گے کیا۔ مہتر نے سلام کیا، دعائیں دیں اور اپنی راہ لی۔ آخر کئی دن سردی
کھاتے رہے، صبح کو گھومنے جایا کرتے تھے، وہ سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ مگر دل بھی قدرت
نے انہیں عجیب قسم کا دیا ہے۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنتے آپکو شرم نہیں آتی۔ میں تو کٹ
جاتی ہوں۔ آپکو مطلق احساس نہیں۔ کوئی ہنستا ہے تو ہنسے۔ آپکی بلا سے۔آخر مجھ سے
دیکھا نہ گیا تو ایک کوٹ بنوا دیا۔ جی تو جلتا تھا کہ خوب سردی کھانے دوں مگر ڈری
کہ کہیں بیمار پڑ جائیں تو اور بھی آفت آ جائے۔ آخر کام تو انہیں کو کرنا ہے۔
یہ اپنے دل میں سمجھتے ہوں گے کہ میں کتنا نیک نفس اور منکسر المزاج ہوں۔ شاید
انہیں ان اوصاف پر ناز ہو۔ میں انہیں نیک نفس نہیں سمجھتی ہوں۔ یہ سادہ لوحی نہیں،
سیدھی سادھی حماقت ہے۔ جس مہتر کو آپ نے اپنا کوٹ دیا اسی کو میں نے کئی بار رات کو
شراب کے نشے میں بد مست جھومتے دیکھا ہے۔ اور آپ کو دکھا بھی دیا ہے۔ تو پھر دوسروں
کی کج روی کا تاوان ہم کیوں دیں؟ اگر آپ نیک نفس اور فیاض ہوتے تو گھر والوں سے بھی
تو فیاضانہ برتاؤ کرتے یا ساری فیاضی باہر والوں کے لیے ہی مخصوص ہے۔ گھر والوں
کو اس کا عشرِ عشیر بھی نہ ملنا چاہیے؟ اتنی عمر گزر گئی مگر اس شخص نے کبھی اپنے
دل سے میرے لیے ایک سوغات بھی نہ خریدی۔ بے شک جو چیز طلب کروں اسے بازار سے لانے
میں انہیں کلام نہیں، مطلق عذر نہیں مگر روپیہ بھی دے دوں یہ شرط ہے۔ انہیں خود
کبھی توفیق نہیں ہوتی۔یہ میں مانتی ہوں کہ بچارے اپنے لیے بھی کچھ نہیں لاتے۔ میں
جو کچھ منگوا دوں اسی پر قناعت کر لیتے ہیں۔ مگر انسان کبھی کبھی شوق کی چیزیں
چاہتا ہی ہے، اور مردوں کودیکھتی ہوں، گھر میں عورت کے لیے طرح طرح کے زیور، کپڑے،
شوق سنگھار کے لوازمات لاتے رہتے ہیں۔ یہاں یہ رسم ممنوع ہے۔ بچوں کے لیے مٹھائی،
کھلونے ، باجے،بگل شاید اپنی زندگی میں ایک بار بھی نہ لائے ہوں، قسم سی کھا لی ہے۔
اس لیے میں توانہیں بخیل کہوں گی، مردہ دل ہی کہوں گی۔ فیاض نہیں کہہ سکتی۔۔
|