|
شکوہ شکایت
(منشی پریم چند)
دوسروں
کے ساتھ ان کا جو فیاضانہ سلوک ہے اسے میں حرص نمود اور سادہ لوحی پر محمول کرتی
ہوں۔آپ کی منکسر المزاجی کا یہ حال ہے کہ جس دفتر میں آپ ملازم ہیں اس کے کسی عہدہ
دار سے آپ کا میل جول نہیں۔ افسروں کو سلام کرنا تو آپ کے آئین کے خلاف ہے۔ نذر یا
ڈالی کی بات تو الگ ہے اور تو اور کبھی کسی افسر کے گھر جاتے ہی نہیں۔ اس کا خمیازہ
آپ نہ اُٹھائیں تو کون اُٹھائے۔ اوروں کو رعایتی چھٹیاں ملتی ہیں، آپ کی تنخواہ
کٹتی ہے۔ اوروں کی ترقیاں ہوتی ہیں آپ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ حاضری میں پانچ منٹ
بھی دیر ہوجائے تو جواب طلب ہو جاتا ہے۔ بچارے جی توڑ کر کام کرتے ہیں۔ کوئی
پیچیدہ، مشکل کام آجائے تو انہیں کے سر منڈھا جاتا ہے۔ انہیں مطلق عذر نہیں،دفتر
میں انہیں گھسو اور پسو وغیرہ خطابات ملے ہوئے ہیں۔ مگر منزل کتنی ہی دشوار طے کریں
ان کی تقدیر میں وہی سوکھی گھاس لکھی ہے۔ یہ انکسار نہیں ہے۔ میں تو اسے زمانہ
شناسی کا فقدان کہتی ہوں۔ آخر کیوں کوئی شخص آپ سے خوش ہو دُنیا میں مروت اور
رواداری سے کام چلتا ہے، اگر ہم کسی سے کھنچے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہم سے نہ
کھنچا رہے، پھر جب دل میں کبیدگی ہوتی ہے تو وہ دفتری تعلقات میں ظاہر ہو جاتی
ہے۔جو ماتحت افسر کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے، جسکی ذات سے افسر کوکوئی فائدہ
پہنچتا ہے، جس پر اعتبار ہوتا ہے اس کا لحاظ وہ لازمی طور پر کرتا ہے۔ ایسے بے
غرضوں سے کیوں کسی کو ہمدردی ہونے لگی۔ افسر بھی انسان ہیں۔ ان کے دل میں جو اعزاز
و امتیار کی ہوس ہوتی ہے وہ کہاں پوری ہو۔ جب اس کے ماتحت ہی فرنٹ رہیں۔ آپ نے جہاں
ملازمت کی وہاں سے نکالے گئے۔ کبھی کسی دفتر میں سال دو سال سے زیادہ نہ چلے۔ یا تو
افسروں سے لڑ گئے یا کام کی کثرت کی شکایت کر بیٹھے۔
آپ کو کنبہ پروری کا دعویٰ ہے۔ آپ کے کئی بھائی بھتیجے ہیں۔وہ کبھی آپ کی بات بھی
نہیں پوچھتے۔ مگر آپ برابر ان کا منہ تاکتے رہتے ہیں۔ ان کے ایک بھائی صاحب آجکل
تحصیل دار ہیں۔ گھر کی جائیداد انہی کی نگرانی میں ہے۔ وہ شان سے رہتے ہیں، موٹر
خرید لی ہے۔ کئی نوکر ہیں، مگر یہاں بھولے سے بھی خط نہیں لکھتے۔ ایک بار ہمیں روپے
کی سخت ضرورت ہوئی، میں نے کہا اپنے برادر مکرم سے کیوں نہیں مانگتے؟ کہنے لگے
انہیں کیوں پریشان کروں۔ آخر انہیں بھی تو اپنا خرچ کرنا ہے۔ کون سی ایسی بچت ہو
جاتی ہو گی۔ میں نے بہت مجبور کیا، تو آ پ نے خط لکھا۔ معلوم نہیںخط میں کیا لکھا،
لیکن روپے نہ آنے تھے نہ آئے۔ کئی دنوں کے بعد میں نے پوچھا، ”کچھ جواب آیا حضور کے
بھائی صاحب کے دربار سے؟“ آپ نے ترش ہو کر کہا، ”ابھی ایک ہفتہ تو خط بھیجے ہوا۔
ابھی کیا جواب آ سکتا ہے؟ ایک ہفتہ اور گزرا۔ اب آپ کا یہ حال ہے کہ مجھے کوئی بات
کرنے کا موقع ہی نہیں عطا فرماتے۔ اتنے بشاش نظر آتے ہیں کہ کیا کہوں۔ باہر سے آتے
ہیں تو خوش خوش۔ کوئی نہ کوئی شگوفہ لیے ہوئے۔ میری خوشامد بھی خوب ہو رہی ہے۔ میرے
میکے والوں کی بھی تعریف ہو رہی ہے۔ میں حضرت کی چال سمجھ رہی تھی۔ یہ ساری
دلجوئیاں محض اس لیے تھیں کہ آپ کے برادرم مکرم کے متعلق کچھ پوچھ نہ بیٹھوں۔ سارے،
ملکی، مالی، اخلاقی تمدنی مسائل میرے سامنے بیان کئے جاتے تھے، اتنی تفصیل اور شرح
کےساتھ کہ پروفیسر بھی دنگ رہ جائے۔ محض اس لیے کہ مجھے اس امر کی بابت کچھ پوچھنے
کا موقع نہ ملے لیکن میں کیا چُوکنے والی تھی، جب پورے دو ہفتے گزر گئے اور بیمہ
کمپنی کے روپے روانہ کرنے کی تاریخ موت کی طرح سر پر آ پہنچی تو میں نے پوچھا کیا
ہوا؟ تمہارے بھائی صاحب نے دہن مبارک سے کچھ فرمایا یا ابھی تک خط ہی نہیںپہنچا۔
آخر ہمارا حصہ بھی گھر کی جائیداد میں کچھ ہے یا نہیں؟ یا ہم کسی لونڈی باندی کی
اولاد ہیں؟ پانچ سو روپے سال کا منافع نو دس سال قبل تھا، اب ایک ہزار سے کم نہ
ہوگا۔ کبھی ایک جھنجی کوڑی بھی ہمیں نہ ملی۔ موٹے حساب سے ہمیں دو ہزار ملنا چاہیے۔
دو ہزار نہ ہو، ایک ہزار ہو، پانچ سو ہو، ڈھائی سو ہو، کچھ نہ ہو تو بیمہ کمپنی کے
پریمیم بھرنے کو تو ہو۔ تحصل دار کی آمدنی ہماری آمدنی سے چوگنی ہے، رشوتیں بھی
لیتے ہیں۔ تو پھر ہمارے روپے کیوں نہیں دیتے۔ آپ ہیں ہیں، ہاں ہاں کرنے لگے۔ بچارے
گھر کی مرمت کراتے ہیں۔ عزیز و اقارب کی مہمان داری کا بار بھی تو انہیں پر ہے۔
خوب! گویا جائداد کا منشاءمحض یہ ہے کہ اس کی کمائی اسی میں صرف ہو جائے۔ اس بھلے
آدمی کو بہانے بھی گھڑنے نہیں آتے۔ مجھ سے پوچھتے ، میں ایک نہیں تو ہزار بتا دیتی۔
کہہ دیتے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا اثاثہ جل کر خاک ہوگیا۔ یا چوری ہو گئی۔ چور نے
گھر میں تنکا تک نہ چھوڑا۔ یا دس ہزار کا غلّہ خریدا تھا۔ اس میں خسارہ ہو گیا۔
گھاٹے سے بیچنا پڑا۔ یا کسی سے مقدمہ بازی ہوگئی اس میں دیوالیہ پٹ گیا۔
|