|
شکوہ شکایت
(منشی پریم چند)
آپ کو
سوجھی بھی تو لچر سی بات۔اس جولانی طبع پر آپ مصنف اور شاعر بھی بنتے ہیں۔ تقدیر
ٹھونک کر بیٹھی رہی۔ پڑوس کی بی بی سے قرض لیے تب جا کر کہیں کام چلا۔ پھر بھی آپ
بھائی بھتیجوں کی تعریف کے پل باندھتے ہیں تو میرے جسم میں آگ لگ جاتی ہے۔ ایسے
برادرانِ یوسف سے خدا بچائے۔
خدا کے فضل سے آپ کے دو بچے ہیں، دو بچیاں بھی ہیں۔ خدا کا فضل کہوں یا خدا کا قہر
کہوں، سب کے سب اتنے شریر ہو گئے کہ معاذ اللہ۔ مگر کیا مجال کہ یہ بھلے مانس کسی
بچے کو تیز نگاہ سے بھی دیکھیں۔ رات کے آٹھ بج گئے ہیں، بڑے صاحب زادے ابھی گھوم کر
نہیں آئے ۔ میں گھبرا رہی ہوں۔ آپ اطمینان سے بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہیں۔جھلائی ہوئی
آتی ہوں اور اخبار چھین کر کہتی ہوں، ”جا کر ذرا دیکھتے کیوں نہیں لونڈا کہاں رہ
گیا۔ نہ جانے تمہارے دل میں کچھ قلق ہے بھی یا نہیں۔ تمہیں تو خدا نے اولاد ہی ناحق
دی۔ آج آئے تو خوب ڈانٹنا“۔ تب آپ بھی گرم ہو جاتے ہیں۔ ”ابھی تک نہیں آیا۔ بڑا
شیطان ہے۔ آج بچو ُ آتے ہیں تو کان اکھاڑ لیتا ہوں، مارے تھپڑوں کے کھال ادھیڑ کر
رکھ دوں گا۔ یوں بگڑ کر طیش کے عالم میں آپ اس کو تلاش کرنے نکلتے ہیں۔ اتفاق سے آپ
ادھر جاتے ہیں، ادھر لڑکا آجاتا ہے۔ میں کہتی ہوں کدھر سے آ گیا۔ وہ بچارے تجھے
ڈھونڈنے گئے ہوئے ہیں۔ دیکھنا آج کیسی مرمت ہوتی ہے۔ یہ عادت ہی چھوٹ جائے گی۔ دانت
پیس رہے تھے آتے ہی ہوں گے۔ چھڑی بھی ہاتھ میں ہے۔ تم اتنے شریر ہو گئے ہو کہ بات
نہیں سنتے۔ آج قدر و عافیت معلوم ہوگی۔ لڑکا سہم جاتا ہے اور لیمپ جلا کر پڑھنے
لگتا ہے۔ آپ ڈیڑھ دو گھنٹے میں لوٹتے ہیں۔ حیران و پریشان اور بدحواس، گھر میں قدم
رکھتے ہی پوچھتے ہیں، ”آیا کہ نہیں؟“
میں ان کا غصہ بھڑکانے کے ارادے سے کہتی ہوں، ”آ کر بیٹھا تو ہے جا کر پوچھتے کیوں
نہیں، پوچھ کر ہار گئی کہاں گیا تھا۔ کچھ بولتا ہی نہیں۔“
آپ گرج پڑتے ہیں، ”منو! یہاں آؤ“
لڑکا تھر تھر کانپتا ہوا آ کر آنگن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ دونوں بچیاں گھر میں چھپ
جاتی ہیں کہ خدا جانے کیا آفت نازل ہونے والی ہے۔ چھوٹا بچہ کھڑکی سے چوہے کی طرح
جھانک رہا ہے۔ آپ جامے سے باہر ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ میں بھی وہ غضب ناک چہرہ
دیکھ کر پچھتانے لگتی ہوں کہ کیوں ان سے شکایت کی۔ آپ لڑکے کے پاس جاتے ہیں مگر
بجائے اس کے کہ چھڑی سے اس کی مرمت کریں۔ آہستہ سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر
بناوٹی غصے سے کہتے ہیں۔ ”تم کہاں گئے تھے جی! منع کیا جاتا ہے۔ مانتے نہیں ہو۔
خبردار جو اب اتنی دیر کی۔ آدمی شام کو گھر چلا آتا ہے یا ادھر ادھر گھومتا ہے؟“
میں سمجھ رہی ہوں یہ تمہید ہے۔ قصیدہ اب شروع ہوگا، گریز تو بری نہیں لیکن یہاں
تمہید ہی خاتمہ ہو جاتی ہے۔ بس آپ کا غصہ فرو ہو گیا۔ لڑکا اپنے کمرے میں چلا جاتا
ہے اور غالباً خوشی سے اچھلنے لگتا ہے۔میں احتجاج کی صدا بلند کرتی ہوں۔ ”تم تو
جیسے ڈر گئے، بھلا دو چار تمانچے تو لگائے ہوتے ۔ اسطرح تو لڑکے شیر ہو جاتے ہیں۔
آج آٹھ بجے آیا ہے۔ کل نو بجے کی خبر لائے گا۔ اس نے بھی دل میں کیا سوچا ہوگا۔“
آپ فرماتے ہیں، ”تم نے سنا نہیں میں نے کتنی زور سے ڈانٹا۔ بچے کی روح ہی فنا ہو
گئی۔ دیکھ لینا جو پھر کبھی دیر میں آئے“۔ ”تم نے ڈانٹا تو نہیں ہاں آنسو پونچھ
دیئے“۔
آپ نے ایک نئی اپج نکالی ہے کہ لڑکے تادیب سے خراب ہو جاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں
لڑکوں کو آزاد رہنا چاہیے۔ ان پر کسی قسم کی بندش یا دباؤ نہ ہونا چاہیے۔بندش سے
آپ کے خیال میں لڑکے کی دماغی نشوو نمامیں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ
ہے، کبھی گولیاں، کبھی کنکوے۔ حضرت بھی انہیں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ چالیس سال سے تو
متجاوز آپ کی عمر ہے مگر لڑکپن دل سے نہیں گیا۔ میرے باپ کے سامنے مجال تھی کہ کوئی
لڑکا کنکوا ُڑا لے یا گلی ڈنڈا کھیل سکے۔ خون پی جاتے۔ صبح سے لڑکوں کو پڑھانے بیٹھ
جاتے ۔ اسکول سے جوں ہی لڑکے واپس آتے پھر لے بیٹھتے۔ بس شام کو آدھے گھنٹے کی چھٹی
دیتے۔ رات کو پھر کام میں جوت دیتے۔ یہ نہیں کہ آپ تو اخبار پڑھیں اور لڑکے گلی گلی
کی خاک چھانتے پھریں۔
|