|
شکوہ شکایت
(منشی پریم چند)
پیروں پڑی،یہاں تک کہا کہ بابا تم کچھ نہ کرنا جو کچھ کرنا
ہوگا میں کرلوں گی۔ تم صرف چل کر منڈپ میں لڑکی کے پاس بیٹھ جاؤ اور اسے دُعا دو۔
مگر اس مرد خدا نے مطلق سماعت نہ کی۔ آخر مجھے رونا آگیا۔باپ کے ہوتے میری لڑکی کا
کنیا دان چچا یا ماموں کرے، یہ مجھے منظور نہ تھا۔ میں نے تنہا کنیا دان کی رسم ادا
کی ۔ آپ گھر جھانکے تک نہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ آپ ہی مجھ سے روٹھ بھی گئے۔ بارات کی
رخصتی کے بعد مجھ سے مہینوں بولے نہیں۔ جھک مار کر مجھی کو منانا پڑا۔
مگر کچھ عجیب دل لگی ہے کہ ان ساری برائیوں کے باوجود میں ان سے ایک دن کے لیے بھی
جدا نہیں رہ سکتی۔ ان سارے عیوب کے باوجود میں انہیں پیار کرتی ہوں۔ ان میں وہ کون
سی خوبی ہے جس پر میں فریفتہ ہوں۔ مجھے خود نہیں معلوم۔ مگر کوئی چیز ہے ضرور جو
مجھے ان کا غلام بنائے ہوئے ہے۔ وہ ذرا معمول سے دیر میں گھر آتے ہیں تو میں بے صبر
ہو جاتی ہوں۔ ان کا سر بھی درد کرے تو میری جان نکل جاتی ہے۔آج اگر تقدیران کے عوض
مجھے کوئی علم اور عقل کا پتلا، حسن اور دولت کا دیوتا بھی دے تو میں اس کی طرف
آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھوں۔ یہ فرض کی بیڑی نہیں ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ رواجی وفاداری
بھی نہیں ہے بلکہ ہم دونوں کی فطرتوں میں کچھ ایسی رواداریاں کچھ ایسی صلاحیتیں
پیدا ہو گئی ہیں۔ گویا کسی مشین کے کل پرزے گھس گھسا کر فٹ ہو گئے ہوں۔ا ور ایک
پرزے کی جگہ دوسرا پرزہ کام نہ دے سکے چاہے وہ پہلے سے کتنا ہی سڈول، نیا اور
خوشنما کیوں نہ ہو۔ جانے ہوئے رستے سے ہم بے خوف، آنکھیں بند کیے چلے جاتے ہیں، اس
کے نشیب و فراز، موڑ اور گھماؤ اب ہماری آنکھوں میں سمائے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس
کسی انجان رستے پر چلنا کتنی زحمت کا باعث ہو سکتا ہے۔ قدم قدم پر گمراہ ہوجانے کے
اندیشے، ہر لمحہ چور اور رہزن کا خوف، بلکہ شاید آج میں ان کی برائیوںکو خوبیوں سے
تبدیل کرنے پر بھی تیار نہیں۔
|