|
ستاروں سے آگے
(قراۃ العین حیدر)
کرتار سنگھ نے اونچی آواز میں ایک اور گیت گانا شروع کردیا۔ وہ بہت دیر سے ماہیا
الاپ رہا تھا جس کو سنتے سنتے حمیدہ کرتار سنگھ کی پنکج جیسی تانوں سے، اس کی
خوبصورت داڑھی سے، ساری کائنات سے اب اس شدت کے ساتھ بیزار ہو چکی تھی کہ اسے خوف
ہو چلا تھا کہ کہیں وہ سچ مچ اس خواہ مخواہ کی نفرت و بیزاری کا اعلان نہ کر بیٹھے۔
اور کامریڈ کرتار ایسا سویٹ ہے فوراً برا مان جائے گا۔ آج کے بیچ میں اگر وہ شامل
نہ ہوتا تو باقی کے ساتھی تو اس قدر سنجیدگی کے موڈ میں تھے کہ حمیدہ کو زندگی سے
اکتا کر خود کشی کرنا جاتی۔ کرتار سنگھ گڈو گراموفون تک ساتھ اٹھا لایا تھا۔ ملکہ
پکھراج کا ایک ریکارڈ تو کیمپ ہی میںٹوٹ چکا تھا، لیکن خیر۔
حمیدہ اپنی سرخ کنارے والی ساری کے آنچل کو شانوں کے گرد بہت احتیاط سے لپیٹ کر ذرا
اور اوپر کو ہو کے بیٹھ گئی جیسے کامریڈ کرتار سنگھ کے ماہیا کو بے حد دلچسپی سے سن
رہی ہے۔ لیکن نہ معلوم کیسی الٹی پلٹی الجھی الجھی بے تکی باتیں اس وقت اس کے دماغ
میں گھسی آرہی تھیں۔ وہ ”جاگ سوز عشق جاگ“ والا بیچارہ رشکارڈ شکنتلا نے توڑ دیا
تھا۔
”افوہ بھئی۔“ بیل گاڑی کے ہچکولوں سے اس کے سر میں ہلکا ہلکا درد ہونے لگا اور ابھی
کتنے بہت سے کام کرنے کوپڑے تھے۔ پورے گاؤں کو ہیضے کے ٹیکے لگانے کو پڑے تھے۔
”توبہ!“ کامریڈ صبیح الدین کے گھونگریالے بالوں کے سر کے نیچے رکھے ہوئے دواؤں کے
بکس میں سے نکل کے دواؤں کی تیز بو سیدھی اس کے دماغ میں پہنچ رہی تھی اور اسے
مستقل طور پر یاد دلائے جارہی تھی کہ زندگی واقعی بہت تلخ اور ناگوار ہے.... ایک
گھسا ہوا، بیکار اور فالتو سا ریکارڈ جس میں سے سوئی کی ٹھیس لگتے ہی وہی مدھم اور
لرزتی ہوئی تانیں بلند ہو جاتی تھیں جو نغمے کی لہروں میں قید رہتے رہتے تھک چکی
تھیں۔ اگر اس ریکارڈ کو ، جو مدتوں سے ریڈیو گرام کے نچلے خانے میں تازہ ترین البم
کے نیچے دبا پڑا تھا ، زور سے زمین پر پٹخ دیا جاتا تو حمیدہ خوشی سے ناچ اٹھی۔
کتنی بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو وہ چاہتی تھی کہ دنیا میں نہ ہوتیں تو کیسا مزہ
رہتا.... اور اس وقت تو ایسا لگا جیسے سچ مچ اس نے "I dream I dwell in marble
halls."والے گھسے ہوئے ریکارڈ کو فرش پر پٹخ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اور جھک کر اس
کی کرچیں چنتے ہوئے اسے بہت ہی لطف آرہا ہے۔ عنابی موزیک کے اس فرش پر، جس پر ایک
دفعہ ایک ہلکے پھلکے فوکس ٹروٹ میں بہتے ہوئے اس نے سوچا تھا کہ بس زندگی سمٹ سمٹا
کے اس چمکیلی سطح، ان زرد پردوں کی رومان آفرین سلوٹوں اور دیواروں میں سے جھانکتی
ہوئی ان مدھم برقی روشنیوں کے خواب آور دھندلکے میں سما گئی ہے، یہ تپش انگیز جاز
یونہی بجتا رہے گا، اندھیرے کونوں میں رکھے ہوئے سیاہی مائل سبز فرن کی ڈالیاں ہوا
کے ہلکے ہلکے جھونکوں میں اس طرح ہچکولے کھاتی رہیں گی اور ریڈیو گرام ہمیشہ پولکا
اور رمبا کے نئے نئے ریکارڈ لگتے جائیں گے۔ یہ تھوڑا ہی ممکن ہے کہ جو باتیں اسے
قطعی پسند نہیں وہ بس ہو تی ہی چلی جائیں.... ریکارڈ گھستے جائیں اور ٹوٹتے جائیں۔
....لیکن یہ ریکارڈوں کا فلسفہ ہے آخر؟ حمیدہ کو ہنسی آگئی۔ اس نے جلدی سے کرتار
سنگھ کی طرف دیکھا ۔ کہیں وہ یہ نہ سمجھ لے کہ وہ اس کے گانے پر ہنس رہی ہے۔
کامریڈ کرتار گائے جا رہا تھا۔ ” وس وس وے ڈھولنا....“ اف! یہ پنجابی کے کے بعض
الفاظ کس قدر بھونڈے ہوتے ہیں۔ حمیدہ ایک ہی طریقے سے بیٹھے بیٹھے تھک کے بانس کے
سہارے آگے کی طرف جھک گئی ۔ بہتی ہوئی ہوا میں اس کا سرخ آنچل پھٹپھٹائے جا رہا
تھا۔
|