|
ستاروں سے آگے
(قراۃ العین حیدر)
اسے معلوم تھا کہ اسے چمپئی رنگ کی ساری بہت سوٹ کرتی ہے۔ اس کے ساتھ کے سب
لڑکے کہا کرتے تھے اگر اس کی آنکھیں ذرا اور سیاہ اور ہونٹ ذرا اور پتلے ہوتے تو
ایشیائی حسن کا بہترین نمونہ بن جاتی۔ یہ لڑکے عورتوں کے حسن کے کتنے قدردان ہوتے
ہیں۔ یونیورسٹی میں ہر سال کس قدر چھان بین اور تفصیلات کے مکمل جائزے کے بعد
لڑکیوں کو خطاب دیے جاتے تھے اور جب نوٹس بورڈ پر سال نو کے اعزازات کی فہرست کی
فہرست لگتی تھی تو لڑکیاں کیسی بے نیازی اور خفگی کا اظہار کرتی ہوئی اس کی طرف نظر
کئے بغیر کوریڈور میں سے گزر جاتی تھیں۔ کمبخت سوچ سوچ کے کیسے مناسب نام ایجاد
کرتے تھے۔ ”عمر خیام کی رباعی“ ، ”دہرہ ایکسپریس“، ”بال آف فائر“ ، "Its Love Im
after"، ”نقوش چغتائی “، بلڈ بنک“۔
گاڑی دھچکے کھاتی چلی جارہی تھی۔ ”کیا بجا ہو گاکامریڈ؟“
گاڑی کے پچھلے حصے میں سے منظور نے جمائی لے کر جتندر سے پوچھا۔
”ساڑھے چار۔ ابھی ہمیں چلتے ہوئے ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا۔“ جتندر اپنا چار خانہ
کوٹ گاڑی بان کے پاس پرال پر بچھائے، کہنی پر سر رکھے چپ چاپ پڑا تھا۔ شکنتلا بھی
شاید سونے لگی تھی حالانکہ وہ بہت دیر سے اس کوشش میں مصروف تھی کہ بس ستاروں کو
دیکھتی رہے ۔ وہ اپنے پیر ذرا اور نہ سیکڑتی لیکن پاس کی جگہ کامریڈ کرتار نے گھیر
رکھی تھی۔ شکنتلا بار بار خود کو یاد دلا رہی تھی کہ اس کی آنکھوں میں اتنی سی بھی
نیند نہیں گھسنی چاہیے۔ ذرا ویسی یعنی نا مناسب سی بات ہے، لیکن دھان کے کھیتوں اور
گھنے باغوں کے اوپر سے آتی ہوئی ہوا میں کافی خنکی آ چلی تھی اور ستارے مدھم پڑتے
جا رہے تھے۔ ” بس بس وے ڈھولنا۔“ اور اب کرتار سنگھ کا جی بے تحاشا چاہ رہا تھا کہ
اپنا صافہ اتار کر ایک طرف ڈال دے اور ہوا میں ہاتھ پھیلا کے ایک ایسی زور دار
انگڑائی لے کہ اس کی ساری تھکن، کوفت اور درماندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کہیں کھو
جائے یا صرف چند لمحوں کے لئے دوبارہ وہی انسان بن جائے جو کبھی جہلم کے سنہرے
پانیوں میںچاند کو ہلکورے کھاتا دیکھ کر امرجیت کے ساتھ پنکج کی سی تانیں اڑایا
کرتا تھا۔ یہ لمحے، جب کہ تاروں کی بھیگی بھیگی چھاؤں میں بیل گاڑی کچی سڑک پر
گھسٹتی ہوئی آگے بڑھتی جارہی تھی، اور جب کہ سارے ساتھیوں کے دلوں میں ایک بیمار سا
احسا س منڈلا رہا تھا کہ پارٹی میں کام کرنے کا آتشیں جوش و خروش کب کا بجھ چکا
تھا۔
ہوا کا ایک بھاری سا جھونکا گاڑی کے اوپر سے گزر گیا اور صبیح الدین اور جتندر کے
بال ہوا میں لہرانے لگے لیکن کرتار سنگھ لیڈیز کی موجودگی میں اپنا صافہ کیسے
اتارتا؟ اس نے ایک لمبا سانس لے کر دواؤں کے بکس پرسر ٹیک دیا اور ستاروں کو تکنے
لگا۔ ایک دفعہ شکنتلا نے اس سے کہا تھا کہ کامریڈ تم اپنی داڑھی کے باوجود کافی
ڈیشنگ لگتے ہو اور یہ کہ اگر تم ائیر فورس میں چلے جاؤ تو اور بھی killingلگنے
لگو۔
اف یہ لڑکیاں!
”کامریڈ سگریٹ لو۔“ صبیح الدین نے اپنا سگریٹوں کا ڈبہ منظور کی طرف پھینک دیا۔
جتندر اور منظور نے ماچس کے اوپر جھک کے سگریٹ سلگائے اور پھر اپنے اپنے خیالوں میں
کھو گئے۔ صبیح الدین ہمیشہ عبد اللہ اور کریون اے پیا کرتا تھا۔ عبد اللہ اب تو
ملتا بھی نہیں۔ صبیح الدین ویسے بھی بہت ہی رئیسانہ خیالات کا مالک تھا۔ اس کا باپ
تو ایک بہت بڑا تعلقہ دار تھا۔ اس کا نام کتنا اسمارٹ اور خوبصورت تھا۔ صبیح الدین
احمد....مخدوم زادہ راجہ صبیح الدین احمد خاں! افوہ! اس کے پاس دو بڑی چمکدار
موٹریں تھیں۔ ایک موریس اور ایک ڈی۔ کے ۔ ڈبلیو لیکن کنگ جارجز سے نکلتے ہی آئی ایم
ایس میں جانے کی بجائے وہ پارٹی کا ایک سر گرم ورکر بن گیا۔ حمیدہ ایسے آدمیوں کو
بہت پسند کرتی تھی۔ آئیڈیل قسم کے ۔ لیکن اگر صبیح الدین اپنی موریس کے اسٹیئرنگ پر
ایک بازو رکھ کے اور جھک کے اس سے کہتا کہ حمیدہ مجھے تمہاری سیاہ آنکھیں بہت اچھی
لگتی ہیں، بہت ہی زیادہ.... تو یقینا اسے ایک زور دار تھپڑ رسید کرتی۔
”ہونہہ....دیز ایڈیٹس!“
صابن کے رنگین بلبلے!
کرتار سنگھ خاموش تھا۔ سگریٹ کی گرمی نے منظور کی تھکن اور افسردگی ذرا دور کردی
تھی ۔ ہوامیں زیادہ ٹھنڈک آچکی تھی۔۔
|