|
ستاروں سے آگے
(قراۃ العین حیدر)
جتندر نے اپنا چار خانہ کوٹ کندھوں پر ڈال لیا
اور پرانی پرال میں ٹانگیں گھسا دیں۔ منظور کو کھانسی اٹھنے لگی۔ ”کامریڈ تم کو
اپنے زیادہ سگریٹ نہیں پینے چاہئیں۔ “ شکنتلا نے ہمدردی کے ساتھ کہا۔ منظور نے اپنے
مخصوص انداز سے زبان پر سے تمباکو کی پتی ہٹائی اور سگریٹ کی راکھ نیچے جھٹک کر دور
باجرے کی لہراتی ہوئی بالیوں کے پرے افق کی سیاہ لکیر کو دیکھنے لگا۔.... یہ
لڑکیاں! طلعت کیسی فکر مندی کے ساتھ کہا کرتا تھا۔ ”منظور! تمہیں سردیوں بھر ٹانک
استعمال کرنے چاہئیں۔ اسکاٹس ایملشن یا ریڈیو مالٹ یا آسٹو مالٹ.... طلعت، ایرانی
بلی! پہلی مرتبہ جب بوٹ کلب Regattaمیں ملی تھی تو اس نے ”اوہ گوش! تو آپ جرنلسٹ
ہیں....اور اوپر سے کمیونسٹ بھی۔ افوہ!“ اب انداز سے کہا تھاکہ ہیڈی لیماری بھی رشک
کرتی۔پھر ، مرمریں ستون کے پاس، پام کے پتوں کے نیچے بیٹھا دیکھ لیا تھا اور اس کی
طرف آئی تھی....کتنی ہمدرد....یقینا۔ اس نے پوچھا تھا:“
”ہیلو چائلڈ۔ ہاؤ از لائف؟“
Ask me anotherمنظور نے کہا تھا۔
”اللہ! لیکن یہ تم سب کو آخر کیا ہوگا “۔ فکر جہاں کھا ئے جا رہی ہے۔ مرے جا رہے
ہیں۔ سچ مچ تمہارے چہروں پر تو نحوست ٹپکنے لگی ہے ۔ کہاں کا پروگرام ہے؟ مسوری
چلتے ہو؟ پر لطف سیزن رہے گا اب کی دفعہ۔ بنگال؟ ارے ہاں ، بنگال۔ تو ٹھیک ہے۔ ہاں
میری بہترین خواہشیں اور دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ پکچر چلو گے۔ ”جین آئر“ اس قدر
غضب کی ہے گوش!“ پھر وہ چلی گئی۔ پیچھے کافی کی مشین کا ہلکا ہلکا شور اسی طرح جاری
رہا اور دیواروں کی سبز روغنی سطح پر آنے جانے والوں کی پرچھائیں رقص کرتی رہیں اور
پھر کلکتے آنے سے ایک روز قبل منظور نے سنا کہ وہ اصغر سے کہہ رہی تھی۔”
ہونہہ....منظور؟“
صبیح الدین ہلکے ہلکے گنگناتا رہا تھا۔ کہو تو ستاروں کی شمعیں بجھا دیں، ستاروں کی
شمعیں بجھا دیں۔ یقینا! بس کہنے کی دیر ہے۔ حمیدہ کے ہونٹوں پر ایک تلخ سی مسکراہٹ
بکھر کے رہ گئی۔ دور دریا کے پل پر گھڑگھڑاتی ہوئی ٹرین گزر رہی تھی۔ اس کے ساتھ
ساتھ روشنیوں کا عکس پانی میں نا چتا رہا، جیسے ایک بلوری میز پر رکھے ہوئے چاندی
کے شمع دان جگمگا اٹھیں۔ چاندی کے شمع دان اور انگوروں کی بیل سے چھپی ہوئی
بالکونی، آئس کریم کے پیالے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے اور برقی پنکھے تیزی سے چل
رہے تھے۔ پیانوں پر بیٹھی ہوئی وہ اپنے آپ کو کس طرح طربیہ کی ہیروئن سمجھنے پر
مجبور ہو گئی تھی۔
"Little Sir Echo how do you do Hell hello wont you come over nad dance with me."
پھر رافے اسٹیئرنگ پر ایک بازو رکھ کر رابرٹ ٹائیلر کے انداز سے کہتا تھا۔ ”حمیدہ
تمہاری یہ سیاہ آنکھیں مجھے بہت پسند ہیں....بہت ہی زیادہ“ یہ بہت ہی زیادہ“ حمیدہ
کے لئے کیا نہ تھا؟ اور جب وہ سیدھی سڑک پر پینتالیس کی رفتار سے کار چھوڑ کر وہی
"I dreamed well in marble halls."گانا شروع کردیتا تو حمیدہ یہ سوچ کر کتنی خوش
ہوتی اور کچھ فخر محسو س ہوتا کہ رافے کی ماں موزا ارٹ کی ہم وطن ہے....آسٹرین۔ اس
کی نیلی چھلکتی ہوئی آنکھیں، اس کے نارنجی بال....اف اللہ! اور کسی گھنے ناشپاتی کے
درخت کے سائے میں کار ٹھہر جاتی اور حمیدہ جام کا ڈبہ کھولتے ہوئے سوچتی کہ بس میں
بسکٹوں میں جام لگاتی ہوں گی۔ رانی انہیں کترتا رہے گا۔ اس کی بیوک پینتالیس کی
رفتار پر چلتی جائے گی اور یہ چناروں سے گھری ہوئی سڑک کبھی ختم نہ ہوگی۔
لیکن ستاروں کی شمعیں آپ سے آپ بجھ گئیں ۔ اندھیرا چھا گیا اور اندھیرے میں بیل
گاڑی کی لالٹین کی بیمار روشنی ٹمٹما رہی تھی۔
ہو لالا لا ....دور کسی کھیت کے کنارے ایک کمزور سے کسان نے اپنی پوری طاقت سے
چڑیوں کو ڈرانے کے لئے ہانک لگائی۔ گاڑی بان اپنے مریل بیلوں کی دمیں مروڑ مروڑ کر
انہیں گالیاں دے رہا تھا اور منظور کی کھانسی اب تک نہ رکی تھی۔۔
|