|
ستاروں سے آگے
(قراۃ العین حیدر)
حمیدہ نے اوپر دیکھا ۔ شبنم آلود دھندلکے میں چھپے ہوئے افق پر ہلکی ہلکی سفیدی
پھیلنی شروع ہو گئی تھی کہیں دور کی مسجد میں سے اذان کی تھرائی ہوئی صدا بلند ہو
رہی تھی۔ حمیدہ سنبھل کر بیٹھ گئی اور غیر ارادی طور پر آنچل سے سر ڈھک لیا۔ جتندر
اپنے چار خانہ کوٹ کا تکیہ بنائے شاید لیٹن کوارٹر اور سو سو کے خواب دیکھ رہا تھا۔
مائیرا، ڈونا مائیرا۔ حمیدہ کی ساری کے آنچل کی سرخ دھاریاں اس کی نیم وا آنکھوں کے
سامنے لہرا رہی تھیں۔ یہ سرخیاں، یہ تپتے ہوئے مہیب شعلے، جن کی جلتی ہوئی تیز
روشنی آنکھوں میں گھس جاتی تھی اور جن کے لرزتے کپکپاتے سایوں کے پس منظر میں گرم
گرم راکھ کے ڈھیر رات کے اڑتے ہوئے سناٹے میں اس کے دل کو اپنے بوجھ سے دبائے ڈال
رہے تھے۔ مائیرا، اس کے نقرئی قہقہے، اس کا گٹار، اکھڑی ہوئی ریل کی پٹڑیاں اور
ٹوٹے ہوئے کھمبے۔ سانتا کلاؤڈ کا وہ چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن جس کے خوبصورت پلیٹ
فارم پر ایک اتوار کو اس نے سرخ اور زرد گلاب کے پھول خریدے تھے۔ وہ لطیف سا، رنگین
سا سکون جو اسے مائیرا کے تاریخی بالوں کے ڈھیر میں ان سرخ شگوفوں کو دیکھ کے حاصل
ہوتا تھا۔
وہ تھک کے گٹار سبزے پر ایک طرف پھینک دیتی تھی اور اسے محسوس ہوتا تھا کہ ساری
کائنات سرخ گلاب اور ستارہ ہائے سحری کی کلیوں کا ایک بڑا سا ڈھیر ہے۔
لیکن تاکستانوں میں گھرے ہوئے اس ریلوے اسٹیشن کے پرخچے اڑ گئے اور طیارو ں کی
گڑگراہٹ اور طیارہ شکن توپوں کی گرج میں شوبرٹ...."Rose monde"کی لہریں اور گٹار کی
رسیلی گونج کہیں بہت دور فیڈ آؤٹ ہو گئی اور حمیدہ کا آنچل صبح کی ٹھنڈی ہوا میں
پھٹپھٹاتا رہا، اس سرخ پرچم کی طرح جسے بلند رکھنے کے لئے جدو جہد اور کشمکش کرتے
کرتے وہ تھک چکا تھا، اکتا چکا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔
”سگریٹ لو بھئی۔ “ صبیح الدین نے منظور کو آواز دی۔
”اب کیا بج کیا ہوگا؟“ شکنتلا بہت دیر سے زیر لب بھیرو کا ”جاگون موہن پیارے“ گنگنا
رہی تھی۔
حمیدہ سڑک کی ریکھائیں گن رہی تھی اور کرتار سنگھ سوچ رہا تھا کہ ”وس وس وے ڈھولنا“
پھر سے شروع کردے۔
گاؤں ابھی بہت دور تھا۔
|