|
ٹیلی گرام
(جوگندر پال)
اسے اور اس کے
........ہمارے بچے کو ........اس کا ہوا تو ہم دونوں کا ہی ہوا ........یہیں اپنے
پاس لے آؤں گا ........اور پھر ہم چین سے رہیں گے ، بڑے چین سے رہیں گے ۔
اس کے دفتر کا کوئی ساتھی اس کا کندھا جھٹک رہا ہے ۔ مشین میں شاید کوئی نقص پیدا
ہوگیا ہے اور وہ رکی پڑی ہے ........شیام بابو!
آں ............ں!........شیام بابو نے ہڑبڑا کر اپنی آنکھیں کھول لی ہیں ۔
طبیعت خراب ہے تو گھرچلے جاؤ۔
کون سا گھر؟ نہیں ٹھیک ہوں ، یوں ہی ذرا اونگھنے لگا تھا ........ٹک ٹک ........ٹک
........ٹک !میشن پھر چلنے لگی ہے ۔
تمہارے لئے پانی منگواؤں ؟
ارے بھائی ،کہہ دیا نا ، ٹھیک ہوں ۔
اس کے ساتھی نے تعجب سے اس کے کام پر جھکے ہوئے سر کی طرف دیکھا ہے اور اپنے کام
میں الجھ گیا ہے ۔
شیام بابو کو اپنا جی اچانک بھر ابھراسا لگنے لگا ہے ۔ عام طور پر تو یہی ہوتا ہے
کہ اسے اپنی خوشی کی خبر ہوتی ہے نہ اداسی کی ۔ اسے بس جو بھی ہوتا ہے بے خبری میں
ہی ہوتا ہے ۔ اے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کررہا ہے اور یوں ہی سب کچھ بخوبی
ہوتا چلا جاتا ہے ۔ وہ بے خبر سا اپنے آپ دفتر میں آپہنچتا ہے اور اسی حالت میں
سارے دن قلم چلا چلا کر اپنے ٹھکانے پر لوٹ آتا ہے اورپھر دوسرے دن صبح کو عین ویسے
کا ویسا ڈیوٹی پرآبیٹھتا ہے ۔ یعنی معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے ، کیوں ہے ،
کیا ہے ؟ ............ کوئی ہو تو معلوم بھی ہو ........اس دن تو حد ہوگئی : وہ
یہاں اپنی سیٹ پر بیٹھا ہے اور اس کا باس یہاں اس کے قریب ہی کھڑا پوچھ رہا ہے ،
بھئی ، شیام بابو آج کہاں ہے ؟
شیام بابو ........شیام بابو!........ شیام بابو یقینی طورپر اس کی آواز سن رہا ہے
، مگر سن رہا ہے تو فوراً ، جواب کیوںنہیں ہیں دیتا ........۔ س سر!........ایسے
بھولے بھٹکے چہرے شاید ہماری آنکھوں میں ٹھہرنے کی بجائے روحوں میں لڑھک جاتے ہیں ۔
ان سے مخاطب ہونا ہو تو اپنے ہی اندر ہولو ، پنی ہی تھوڑی سے جان سے انہیں زندہ
کرلو، ورنہ یہ تو جیسے ہیں ویسے ہی ہیں ۔
گوشت کو رگوں میں خون دوڑنے کی اطلاع ملتی رہے تو یہ زندہ رہتا ہے ، ورنہ بے خبری
میں مٹی ہوجاتا ہے ۔ جب شیام بابو کی اپنی زندگی بے پیغام ہے تو اسے کیسے محسوس
ہوکہ ٹیلی گراموں کے ٹیکسٹ برقی کوڈ کی اوٹ میں کھلکھلا کر ہنس رہے ہیں ، یادھاڑیں
مار مارکررو رہے ہیں ف، یا تجتس سے اکڑے پڑے ہیں ۔ سوکھی مٹی کے دل پر آپ کچھ بھی
لکھ دیجئے ، اے اس سے کیا ؟ شیام بابو کو اسے سے کیا ، کہ کوئی کسے کیا پیغام بھیج
رہا ہے ؟ اس کی قسمت میں تو کسی کا پیغام نہیں ، محبت کا یانفرت ، خوشی یا غم کا
........اسے کیا ؟ ................ٹیلی گراموں کے گرم گرم ٹیکسٹ کا کوڈ اس کے
ٹھنڈے قلم سولی سے لٹک کر سپاٹ سی صورت لئے کاغذ پر ڈھیر ہوتا رہتا ہے ........یہ
لو ، الفاظ تو نرے الفاظ ہیں ،بس الفاظ ہیں ، الفاظ کیوں ہنسیں یا روئیں گے ؟ ان کو
پڑھ کے ہنسو ، روؤ، یا جو بھی کرو ، تم ہی کرو ............یہ لو !
لیکن اس وقت یہ ہے کہ شیام بابو کو اپنا جی یک بارگی بہت بھرا بھرا لگنے لگا ہے ۔
سوچوں کا تالاب شاید بھر بھر کے اس کے دل تک آپہنچا ہے اور وہ انجانے میں تیرنے لگا
ہے اور سوکھی مٹی میں جان پڑنے لگی ہے ۔
............سٹاپ میں بدیس سے لوٹ آیا ہوں سٹاپ ........اور عین اس وقت صاحب کے
چپراسی نے اس کی آنکھوں کے نیچے ہیڈ آفس کا ایک لیٹر رکھ دیا ہے ۔ اس نے لیٹر پر
نظر ڈالی ہے اور پھر چونک کر خوشی سے کانپتے ہوئے اسے دوبارہ پرھنے لگا ہے ۔ اسے
سرکاری طور پر اطلاع دی گئی ہے کہ تمہارے نام دو کمروں کا کوارٹر منظور ہوگیا ہے !
کیدار بابو ........جمیل........کشن !........ادھر دیکھو دوستو ۔ دیکھو ، میرا کیا
لیٹر آیا ہے ؟
کیا کیا ہے؟
|