|
ٹیلی گرام
(جوگندر پال)
میرا کوارٹر منظور ہوگیا ہے !
تو کیا ہوا ؟........بائیں ، کیا کہا ................کوارٹر منظور ہوگیا ہے ؟!ہاں
!
بہت اچھا !........بہت اچھا ! سب کے لئے چائے ہوجائے شیام بابو !
ارے چائے ہی کیاع ، کچھ ادھارے دے سکتے ہوتو جو چاہو منگوالو۔
ہاں ، تم فکر نہ کرو۔ میں سارا بندوبست کئے دیتا ہوں ........یہ تو بہت ہی اچھا
ہوگیا شیا م بابو!........رامو........ادھر آؤ رامو، جاؤ ہوٹل والے کو بلالاؤ
........جاؤ........اب بھابی کو کب لارہے ہو شیام بابو؟
آج چھٹی کی درخواست دے کرہی جاؤں گا کیدار بابو! ........شیا م بابو قصور میں
اپنے کوارٹر میں بیٹھا کھانا کھا رہا ہے اور اس کے کندھوں پر اس کا لڑکا کھیل رہا
ہے ........کیا نام ہے اس کا ؟........دیکھو ناع ، دماغ پر زورڈالے بغیر اپنے
اکلوتے بچے کا ............اپنا ہی تو ہے ............نام بھی یاد نہیں آتا ۔ کوئی
بات نہیں شکر اور دودھ کھلتے ملتے ہی گاڑھے اور میٹھے ہوجاتے ہیں ............اری
سن رہی ہو بھلی لوگ ؟اگلی چپاتی کب بھیجوگی ؟ دفتر کے لئے دیر ہورہی ہے ۔
لو ، شیام بابو ، ہوٹل والا توآگیا ہے ........بس ایک ایک چاٹ ، ایک ایک گلاب جامن
اور کیا؟ ایک ایک سموسہ ........چلے گا ناشیا م بابو؟........ لکھو ہمارا آرڈر
بھائی پر نانند!
شیا م بابو کو پتہ ہی نہیں چلا ہے کہ دفتر میں باقی سارا وقت کیسے بیت گیا ہے ۔
وہاں سے اٹھنے سے پہلے اسنے سب ساتھیوں سے وعدہ کیا ہے کہ کل سویرے وہ ان سب کو ان
کی بھابی کی تصویر دکھائے گا ۔
اتنی بھولی ہے کہ ڈرتا ہوں اس شہر میں کیسے رہے گی ۔
ڈرومت شیام بابو۔ بھابی کو لانا ہے تو اب شیربیر بن جاؤ ۔
دفتر سے نکل کر تیز تیز قدم اٹھائے ہوئے شیام بابو چوراہے پر آگیا ہے اور پان اور
سگریٹ لینے کے لئے رک گیا ہے ........ اور پھر تمباکو والے پان کا لعاب حلق سے
اتارتے ہوئے نتھنوں سے سگریٹ کا دھواں بکھیرتے ہوئے ہلکی ہلکی سردی میں حدت محسوس
کرتے وہ بڑے اطمینان سے اپنے رہائش کے اڈے کی طرف ہولیا ........ایک چھوٹی سی کھولی
جس میں مشکل سے ایک چارپائی آتی ہے ۔ ابھی پچھلے ہی مہینے خان سیٹھ نے اسے دھمکی دی
تھی بھاڑے کے دس روپے بڑھاؤ ، نہیں تو چلتے بنو ........ہاں !
چوہے کے اس بل کا کرایہ پہلے ہی پچاس روپے وصول کرتے ہو خان سیٹھ ۔ اپنے خدا سے ڈرو
!
لیکن خان سیٹھ نے اپنے خدا کو ڈرانے کے لئے ایک بھیانک قہقہہ لگایا ........بلی
شریف نہ ہوتی بابو ، تو بولو ، کیا ہوجاتا ؟ ........ ساٹھ روپے ، نہیں توخالی کرو
............ہاں !
اسی مہینے خالی کردوں گا اور سیٹھ سے کہوں گا ، لو سنبھالو اپنی کھولی خان سیٹھ ۔
تمہاری قبر کی پورے سائز کی ہے ........ لو!........نہیں جھگڑے وگرے کا کیا فائدہ ؟
چپکے سے اس کی کھولی اس کے حوالے کرکے اپنی راہ لوں گا ۔
بس سٹاپ آگیا ہے اور بس بھی کھڑی ہے ، لیکن بہت بھری ہوئی ہے ۔ شیام بابو نے فیصلہ
کرلیا ہے کہ وہ پیدل ہی جائے گا ۔ یہاں سے تھوڑ ہی فاصلہ تو ہے ........ اس کا
سگریٹ جل جل کر انگلیوں تک آپہنچا ہے ، لیکن ابھی اس کی خواہش نہیں مٹی ہے ۔اس نے
ہاتھ کا ٹکڑا پھینک کر ایک اورسگریٹ سلگالیا ہے ............ساوتری کو میری سگریٹ
پینا بالکل پسند نہیں ........ پیسے بھی جلاتے ہو اور پھیپھڑے بھی ۔ اس سے تو اچھا
ہے میرا ہی ایک سرا جلا کر دوسرے کو ہونٹوں میں دبالو اور دھواں چھوڑتے جاؤ !
میرا مزہ کیا سگریٹ سے کم ہے ؟ ........اری بھلی لوگ ، ایک تمہارا ہی مزہ تو ہے ۔
سگریٹ و گریٹ کی لت کو گولی مارو ........آؤ!........اس نے خیال ہی خیال میںبیوی
کو سینے سے لگالیا ہے۔
|