|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
اس نے جھٹ سے کاروباری پینتر بدلا اور ذرا بے تکلفی سے کہنے لگا اچھا
تو آپ ہیں ،اور پھر وہ مسکرا دیا ،اگر آپ افیشکی پوچھتے ہیں تو دیکھئے دونوں ٹرکوں
پر آلوؤں کے بورے لدے ہوئے ہیں میں ثبوت میں ڈسٹرکٹ آکڑا آفس کی رسید پیش کرسکتا
ہوں ۔ چونگی کا یہ محصول ابھی پچھلے ناکے پر ہی ادا کیاگیا ہے ۔ اور جو کچھ اصلیت
ہے وہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے ۔ اس لئے کہ آئرین ٹیٹس کو اس طرح لے جانے کا یہ کوئی
پہلااتفاق تو نہیں ہے ۔ یہ سلسلہ تو ایک مدت سے چل رہا ہے ۔
انسپکٹر گردن ہلا کر بولا”جی ہاں ، سنا تو کچھ میں نے بھی یہی ہے اور اس لئے کئی
گھنٹوں سے اس سڑک پر تپسیا کررہا تھا ۔ “ ........وانچو ہنسنے لگا یہ تپسیا تو آپ
نے خواہ مخواہ اپنے سر مول لی ۔ میں نے آپ کو دو مرتبہ فون کیا ۔ اگر آپ دفتر میں
مل جاتے تو اس طرح کیوں پریشانی اٹھانا پڑتی ۔ اور خود مجھے یہاں سردی میں نہ آنا
پڑتا ۔ مگر چلئے یہ بھی ٹھیک رہا ۔ اس بہانے آپ کے درشن تو ہوگئے !“اور وہ تین سو
روپے احمد پور کے اس ٹرپ میں بچالینا چاہتا تھا ۔ آخر اس نے کرنسی نوٹوں کو اندرونی
جیب میں سے نکالا اور انسپکٹر کی طرف بڑھاکرکہنے لگا ” آپ سے پہلی ملاقات ہوئی ہے ۔
اس لئے کچھ نہ کچھ نذرانہ تو دینا ہی پڑے گا ۔ لیجئے ان کو رکھ لیجئے ۔ فرمائیے اور
کیاسیوا کی جائے ۔“
اینٹی کرپشن انسپکٹر روکھے پن سے بولا” اس مہربانی کا شکریہ ۔ اب اتنی اورمہربانی
کیجئے کہ ان کو اپنے اپس ہی رہنے دیجئے ۔“
وانچو ذرا سنجیدہ ہوکر خاموش ہوگیا ۔ دونوں اندھیرے میں چپ چاپ کھڑے تھے اورکو
ہستانی چٹانوں میں پت جھڑ کی بپھری ہوئی ہوائیں چیختی رہیں ۔ آگے کھڑے ہوئے ٹرکوں
کے اندر سرگوشیوں کی دبی دبی آوازیں بھنبھنا رہی تھی ۔وانچوذرا غور کرنے لگا کہ یہ
آسانی سے ماننے والی آسامی نہیں ہے ۔ اس سالے کو ابھی کچھ اور بھی دکشنا دینا پڑے
گی ۔ اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ ہر کامیاب جرم کی سازش پہلے پولیس اسٹیشن کے اندر
ہوتی ہے م یہ بات دوسری ہے کہ سودا بعد میں طے ہوسکتا ہے ۔ سچ یو یہ ہے کہ یہ سب
مایا کے کھیل ہیں م اورمایا کے روپ نیارے ہیں اسی لئے جرائم کی نوعتیں جداگانہ ہیں
جیب کاٹنے والا زیادہ سے زیادہ ہسٹری شیٹر بن سکتا ہے اور کارہائے نمایاں انجام
دینے والا سرمایہ دار ہوجاتا ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہسٹری شیٹر بننے کے لئے
پولیس کی سرپرستی درکار ہوتی ہے اور سرمایہ داری کے لئے گورنمنٹ سے ساز باز کئے
بغیر کام نہیں چلتا۔ وانچو نے جیب کے اندر سے کچھ اور کرنسی نوٹ نکالے اور آہستہ
آہستہ کہنے لگا۔
انسپکٹر تیواری جب تک اس سرکل میں تعینات رہے ہماری انڈسٹری کی طرف سے ان کو اس
حساب سے ان کا حق برابر پہنچتارہا۔”پھر خوشامد کرنے کے سے انداز میں وہ مسکرا کر
بوالا” لیکن آپ کو اس طرح جاڑے پالے میں آکر پریشان ہونا پڑا ہے ۔ اب اس پریشانی کا
بھی کچھ خیال کرنا پڑے گا۔”لیجئے یہ دوسو اور ہیں۔ دیکھئے اب کچھ اور نہ کہئے
گا۔اور اپنا ریوالور تو آپ اب اندر رکھ لیجئے۔ خواہ مخواہ آپ سے خوف معلوم رہا ہے۔“
مگر بھاری بھرکم جسم والاانسپکٹر اسی طرح ناراضگی کے سے انداز میں بولا دیکھئے آپ
مجھے غلطڈ سمجھ رہے ہیں میں ان دونوں ٹرکوں کو پولیس اسٹیشن لے جائے بغیر باز نہیں
آؤں گا آپ خواہ مخواہ میرا بھی وقت خراب کر رہے ہیں اورخود بھی پریشانی اٹھا رہے
ہیں اور وہ موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کرنے لگا۔
اس دفعہ وانچو کی مسکراہٹ نے دم توڑ دیا اس نے بڑی تیکسی نظروں سے انسپکٹر کو گھور
کر دیکھا ۔ اس عرصہ میں پہلی بار اس کو خطرے کی نوعیت کا احساس ہوا تھا ۔ اس لئے کہ
دونوں ٹرکس کسی طرح بھی پولیس اسٹیشن نہیں جاسکتے تھے ۔ کمپنی کا یہی حکم تھا ،یہی
ہدایت تھی اور اس ذمہ داری کے لئے کمپنی سے اس کو نوسو روپے ماہوار تنخواہ کے علاوہ
مینجنگ ڈائریکٹر کی طرف سے چھ سو روپے ایکسٹر ا لاؤنس بھی ملتا تھا ۔ وانچو کئی
ماہ سے اپنی اس ڈیوٹی کو بڑی مستعدی سے انجام دے رہا تھا ۔ کمپنی اس کی کار گزاریوں
کوسراحتی رہی ہے اور بورڈ آف ڈائریکٹر کی کی میٹنگ میں بہت سی باتوں کےلئے اس کو
جوابدہ بھی ہونا پڑتا ہے اوراکثر ایسے بے تکے سوالوں سے اس کو سابقہ پڑا کہ وہ
بدحواس ؒہوجاتا ۔ اس لئے وہ پانچ سو روپے سے زیادہ دوٹرکوں کے لئے رشوت نہیں دے
سکتا۔
|