|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
اور ان میں سے ایک تو ریونیو منسٹر کا داماد بھی ہے اور اسی لئے سرکاری
محکموں میں کمپنی کا اثر بھی ہے م اور زوربھی ہے ۔لیکن بھاری بھر کم جسم والا
انسپکٹر ان رازھائے سربستہ کو نہیں جانتا ۔ اس سرکل میں ابھی اس کا نیا نیا ٹرانسفر
ہوا ہے م اس لئے پورے علاقہ میں وہ اپنی دھاک بٹھا دینا چاہتا ہے ۔ اور اس لئے ایک
آدھ بڑا کیس بنائے بغیر بات نہیں بنتی ۔ اور پولیس کی مکینک کے مطابق ایک بار جہاں
ہوابندھ گئی پھرتو لکشمی آکر خود قدم چومتی ہے ۔ اور اسی لئے وہ کسی طرح باز نہیں
آسکتا ۔ وانچو کی باتوں پرجھنبھلا کر اس نے جواب دیا ۔
”ممکن ہے ،آپ ٹھیک کہہ رہے ہوں ۔ ابھی تو آپ ذرا چل کر حوالات میں ٹھہرئے پھردیکھیں
گے کہ آپ لوگ اپنے بچاؤ کا کونسا طریقہ جانتے ہیں ۔“
اس دفعہ وانچو بھی پھرگیا۔ اس نے تیزی سے کہا ” انسپکٹر صاحب مجھے کیلاش ناتھ
وانچوکہتے ہیں ۔میں تھانہ جانے سے پہلے بات کو یہاں بھی طے کرسکتا ہوں ۔آپ کے ایسے
انٹی کرپشن کے انسپکٹروں سے یہاں اکثر سابقہ پرا کرتا ہے ۔ اگر ان میں کوئی مل گیا
ہوتا تو اس طرح مونچھ اونچی کرکے آپ کو بات کرنے کی جرات نہ ہوتی ۔ “
انسپکٹڑ کے چہرے پر اور ابھی خشونت آگئی ۔ وہ اس کو بڑی تیکھی نظروں سے گھورنے لگا
اور اسی وقت آ بنوسی جسم والے نیل کنٹھ نے اندھیرے میںسے نکل کر اس کے سر پر ” آہنی
راڈ“اٹھا کر زور سے دے مارا ۔انسپکٹر نے دبی ہوئی کراہ کے ساتھ ہائے کرکے پھٹی ہوئی
بھیانک آواز نکالی ۔ اور لڑکھڑا کر سڑک پرگرپڑا ۔ اس کی انگلیوں میں دبا ہوا
ریوالور ابھی تک کانپ رہا تھا ۔ وانچو نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ کو اپنے بوجھل جوتے سے
رگڑدیا اورریوالورکو چھین کر ٹیلوں کی طرف پھینک دیا ۔ اوراس کی ریڑھ کی ہڈی پر ایک
بھرپور لات مار کر بڑبڑانے لگا ۔
” دمت تیرے کی ،سالا کسی طرح مانتا ہی نہ تھا “ اورپھروہ نیل کنٹھ سے کہنے لگا ”
مہاراج ڈال دو سالے کو ادھر کنارے کی طرف !“اور پھراطمینان سے اییک سگریٹ سلگا کر
پوچھنے لگا ” ہاں یہ دیکھ لو کہ زخم گہراتو نہیں پڑا ہے ، ورنہ بلاوجہ بات اوربڑھ
جائے گی ۔ “
نیل کنٹھ کہنے لگا ’ب ہاتھ بھرپور نہیں پڑا ہے ، کوئی گھبرانے کی بات نہیں ہے ۔“
پھر نیل کنٹھ نے سڑک پر بے سدھ پڑے ہوئے بھاری بھرکم جسم والے انسپکٹر کابازو پکڑا
اور اس کو گھسیٹتا ہوادورتک چلا گیا۔ اس کا کرخت چہرہ خون میں ڈوب کر بڑا بھیانک
نظر آرہا تھا ۔ اورسانس سہمی ہوئی چل رہی تھی ۔وہ اسی طرح جھکے ہوئے کوہستانی ٹیلوں
کے دامن میں کسی لاش کی طرح بے جان پڑا رہا ۔ اور آغاز سرما کی تیکھی ہوائیں
پتھریلی چٹانوں میں ھانپتی رہیں ۔ اور ایک بارگی کہیں نزدیک ہی گیڈریوں نے شورمچانا
شروع کردیا ۔
دونوں ٹرکوں کے اسٹارٹ ہونے کی کھڑکھڑاہٹ سنسان رات میں ابھرنے لگی۔ اور وہ موٹر
سائیکل کو بری طرح روندتے ہوئے سڑک پر پھر چلنے لگے ۔ لیکن احمد پور جانے کے بجائے
، اب وہ جنوبی ٹیلوںکی طرف مڑ رہے تھے ۔ اور کوئی سترہ میل کا چکر کاٹنے کے بعد
دونوں ٹرک پھر اسی چوراہے پر پہنچ گئے جہاں لوہے کے کھمبے پرلگے ہوئے بورڈوں پر
لکھا تھا :
بلیر گھاٹ ،اکیاون میل ۔
سجنواں کلاں ،اٹھارہ میل ۔
شیام باڑہ ، چوراسی میل ۔
احمد پورا، ایک سو باون میل ۔
قریب ہی ڈسٹرکٹ آکٹرائے ٹیکس آفس تھا ۔ جس کے جھکے ہوئے سائیبان کے نیچے ایک دھندلا
سا لیمپ جل رہا تھا ۔ او ر بوڑھا محرر رجسٹروں کو کھولے ہوئے کھانس رہا تھا ۔ ابھی
کچھ عرصہ قبل یہاں پر دونوں ٹرکوں کی چنگی کا محصول ادا کیاگیا تھا۔
|