|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
وانچو ٹرک پر
سے اترا اور سیدھا سا ئیبان کے نیچے چلا گیا ۔ اورسرگوشی کے لہجہ میں آہستہ سے بولا
:
منشی جی میرے خیال میں، آپ کے رجسٹروں میں ٹائم تو درج نہیں ہوتا ہوگا “ پھر بغیر
جواب کا انتظار کئے ہوئے اس نے چوکنا نظروں سے چاروں طرف دیکھا ۔ اور تیس روپے کے
کرنسی نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دئے ” لیجئے ان کو رکھ لیجئے ،اگرکوئی دریافت
کرنے آئے تو کہہ دیجئے گا کہ دونوں ٹرکس کوئی ساڑھے آٹھ بجے کے قریب یہاں آئے تھے ،
سمجھ گئے نا آپ !“
اوربوڑھے نژرر بے گردن ہلادی ” ایسا ہی ہوجائے گا ۔ پر کوئی گھبرانے کی بات تو نہیں
!“
وانچو ڈرامائی اندازمیںقہقہہ لگاکر کہنے لگا ” جب تک ہم موجود ہیں اس وقت تک بھلا
آپ پر کوئی آنچ آسکتی ہے “
وہ بھی ہنسنے لگا ”سو بات تو یہ ہے ، پر بات اتنی ہے سرکار ہ اب زمانہ بڑا خراب لگ
گیا ہے ۔ ذرا ذرا سی بات میں سسربال کی کھال نکالتے ہیں ۔“
اورپھرچونگی کے محرر کو کو مطمئن کرکے وہ مسکراتا ہوا ٹرک کے اندر جاکربیٹھ گیا ۔
دونوں ٹرک پھر روانہ ہوگئے ۔ سامنے پتمبر پورروڈ اندھیرے میں بل کھاتی ہوئی چلی گئی
ہے ۔ مگر دونوں ٹرک پھر اس طرف جانے کی بجائے راحیل روڈ کی طرف مڑگئے ۔ وانچو نے
گھڑی میں وقت دیکھا ،اب ڈیڑھ بج رہا تھا ۔ اور پھر دو بجنے سے پہلے ہی دونوں ٹرک
ابیر گڑہ پولیس اسٹیشن کے قریب جاکر ٹھہر گئے ۔وانچوتھانہ کے اندر چلا گیا ۔ اور
ڈیوٹی انسپکٹر کو ڈیڑھ سو روپے دے کر اس نے ایک ٹرک کا چالان کرادیا ۔ روزنامچہ میں
درج کردیا گیا ۔
” ٹرک نمبر 3136 ، نو بجے شب کو راحیل روڈ پر سے گزرتے ہوئے بغیر ہیڈ لائٹس کے پایا
گیا ۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کی بیٹری خراب تھی ۔ ٹرک مذکور یونائیٹڈ
انڈسٹریز لمیٹڈ کی ملکیت ہے اور اس میں آلو کے بورے لدے تھے ۔“
اوراسی طرح حکیم پورکے تھانہ پر مزید ڈیڑھ سو روپیہ رشوت دے کر دوسرے ٹرک کا بھی
چالان کرادیا گیا ۔ اور ہیڈ کانسٹیبل سرکاری روزنامچہ میںاندراج کرنے لگا :
” پونے دس بجے شب کو ٹرک نمبر6228راحیل روڈ ، پر اتنی تیز رفتار سے گزر رہا تھا کہ
کسی حادثہ کے ہوجانے کا خطرہ تھا ۔ ڈیوٹی انسپکٹر ہرنام سنگھ نے اس کو رکوا کر
تحقیقات کی تو یہ بھی دریافت ہوا کہ ڈرائیور مسمی نظر کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی
موجود نہ تھا........!“
اس کے بعد دونوں ٹرک پھر راحیل روڈ پر تیزی سے گزرنے لگے ۔ اور صبح کاذب کی گہری
دھند میں دونوں ٹرک بلیر گھاٹ پر پہنچ گئے ۔ پھر چھ بجے سے پیشتر ہی وانچو بھارت
انجینئرنگ ورکس کی نئی اسٹوڈی بیکر پر واپس لوٹ پڑا ۔ا ور ابھی دھوپ بھی اچھی طرح
پھیلنے بھی نہ پائی تھی کہ اس کی کار فیکٹری کے پھاٹک کے اندر داخل ہوگئی۔
وانچو اپنے دفتر میں جاکر حسب معمول کمپنی کے کاموں میں الجھ گیا ۔ اور رات کے
حادثہ کی اہمیت سینچر کے روز ہونے والے اس ڈریلمنٹ سے زیادہ نہ رہی جس میں ریلوے کی
ایک گیرج فیکٹری کے یارڈ کے اندر ڈیج ہوگئی تھی اور اس نقصان کےلئے ریلوے نے کوئی
چار ہزار روپے کا کلیم کیا تھا اورعدالتی کارروائیوں کے لئے ہرندر پرشاد ، ایڈووکیٹ
کمپنی کے مشیر قانونی ہی موجود تھے ۔
پولیس تحقیقات کرتی رہی ، تفتیش برابر ہوتی رہی ۔ اور اینٹی کرپشن کا بھاری بھرکم
جسم والاانسپکٹر ،ہسپتال میں پڑا کراہتا رہا ۔ اور مضبوط پٹھوں والانیل کنٹھ بھنگ
چڑھاکر ٹھاٹھ سے گالیاں بکتا ر۔اور اور اپنے کوارٹر کے اندر لیٹا ہوا رات گئے تک
اونچی آوااز میں آلہا گایا کرتا ۔
”اور اگرتمہاری بات نہ مانی جائے تو ؟“
”پھر تو کنور صاحباس کا نتیجہ کچھ اچھانہیں نکلے گا “
”لیکن دیپ چند تمہیں معلوم ہوناچاہیے کہ میں کمپنی کا مینجنگ ڈائریکٹر ہوں
۔
|