|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
کمرے کے اندر اسی طرح تیز لہجہ میں باتیں ہوتی رہیں ۔ آتشدان میں کوئلے چٹخ رہے تھے
۔ دھکتے ہوئے سرخ انگاروں کی روشنی میںوانچو کا گنجا سرچمکنے لگا تھا ۔ مگر وہ
خاموش بیٹھا ہوا اپنا بھدا سا پائپ پیتا رہا ۔ دریچہ سے ہوا کے نج بستہ جھونکے اندر
آرہے تھے اور فیکٹڑی کے ورکشاپ میں دھڑکتی ہوئی لوہے کی جھنکاروں کا شور سنائی دے
رہا تھا ۔ باہر ملکی نیلگوں کہرکے لچھے منڈا رہے تھے ، اور اس دھند میں لپٹی ہوئی
مینجنگ ڈائریکٹر کی خوبصورت کوٹھی اور نکھتی ہوئی معلوم ہورہی تھی، جس کے باہری
وارنڈے میں نیل کنٹھ دیوار سے پیٹھ کو ٹکائے ہوئے چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا ۔ وارنڈے
میں بالکل اندھیرا تھا۔ اور اس گہری تاریکی میں نیل کنٹھ کا سیاہ آبنوسی جسم آسیب
زدہ سایہ کی طرح ڈراؤ نامعلوم ہورہا تھا ۔
نیل کنٹھ اس طرح اندھیرے میں خاموش بیٹھا رہا اور جب کبھی دیپ چند تیزی سے بولتا تو
وہ چونک کر کمرے کے دروازے کی طرف گھبرا کر دیکھتا جیسے اب کچھ نہ کچھ ہونے ہی والا
ہے ۔ لیکن دیپ چند اندر بیٹھا ہوا اطمینان سے باتیں کرتا رہا ۔ اس کے چہرے پر ٹیبل
لیمپ کے ” سیڑ “کی پرچھائیں پڑ رہی ہے ، اور اس دھندی روشنی میں اس کا منحنی جسم
ناٹک کے کسی مسخرے کی طرح حقیر نظر آرہاہے ۔ مگر دیپ چند کمپنی کا چیف اکاؤٹنٹ ہے
۔ اور کمپنی کی غیر قظانونی سازشوں میں اس کا کردار بہت اہم ہے ۔یہ بات نیلی آنکھوں
والا وانچو بھی جانتا ہے اور اس کی اہمیت مینجنگ ڈائریکٹر کو بھی معلوم ہے ، جس کو
فیکٹری کے اندر سب لوگ کنور صاحب کہتے ہیں ۔ اس لئے کہ وہ رانی بازار کے علاقہ کا
جاگیردار ہے ۔ وہ کاروباری مکینک سے زیادہ گھوڑوں کی نسلیں اور عورتوں کی مختلف
قسموں کے متعلق بہت کچھ جانتا ہے ۔ اس لئے کہ اس نے زندگی بھر ریس میں گھوڑے دوڑائے
ہیں ۔ اور عورت کے جسم پر کسی کیمیا گر کی طرح کوک شاستری تجربے کئے ہیں ۔ اور جب
سے جاگیرداری پر زوال آنے کی افواہیں سرکاری حلقوں میں گشت کرنے لگی ہیں ، اس نے
بھی اپنے سرمایہ کو محفوظ کرنے کےلئے کسی انڈسٹری میں داخل ہوجانا ہی اپنے حقوق میں
بہتر سمجھا۔ اور اس دور اندیشی نے اس کو کنور شیوراج سنگھ سے ایک بارگی
یونائیٹڈانڈسٹریز کا مینجنگ ڈائریکٹر بنا دیا ہے ۔ لیکن کمپنی کا چیف اکاؤٹنٹ اس
کی باتوں سے ذرا بھی مرعوب نہیں ہوا بلکہ اس نے بڑی بے نیازی سے کہہ دیا :
،اور آپ کو یہ معلوم ہے کہ میں کمپنی کا چیف اکاؤٹنٹ ہوں ۔ سارے رجسٹرمیرے ہی پاس
رہتے ہیں ۔
مینجنگ ڈائریکٹر ایک بارگی برافروختہ ہوکر بولا ” ٹھیک ہے کہ تمام رجسٹر تمہاری
نگرانی میں رہتے ہیں مگراس بات سے تمہارا مطلب ؟“
وہ کہنے لگا ” چوٹ کھایا ہوا انسان بڑا خطرناک ہوتا ہے ، کنور صاحب !آپ میرے ساتھ
حق تلفی کریں گے تو میں بھی سارے رجسٹروں کو کل ڈائریکٹروں کی میٹنگ میں پیش کرسکتا
ہوں ۔“
مینجنگ ڈائریکٹرکے سانس کی رفتار ایک دم سے تیز ہوگئی اور وہ منحنی جسم والے دیپ
چند کو عقابی نظروں سے گھورنے لگا ۔ لیکن دیپ چند بیٹھا ہوا مزے سے اپنی کنپٹی
کھجاتا رہا ۔ اس لئے کہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مینجنگ ڈائریکٹر اس کا کچھ بھی
نہیں بگاڑ سکتا ۔ وہ پوری طرح اس کے قابو میں ہے ۔ دیپ چند اس کی سازس کے اتنے بڑے
راز کا محافظ ہے کہ وہ جس وقت بھی چاہے اس کو نقصان پہنچا سکتاہے ۔ بات دراصل یہ ہے
کہ سیمنٹ اور آئرن جن داموں پر چور بازار میں فروخت ہوتا ہے ، کمپنی کے رجسٹروں میں
ان کی قیمت بہت کم درج کی جاتی ہے۔ اور اسطرح اب تک مینجنگ ڈائریکٹر نے پوشیدہ طور
پر کوئی دو لاکھ روپیہ غبن کرلیا ہے ۔ لیکن دیپ چند کو اپنے اعتماد میں رکھنے کےلئے
اس نے دس فیصدی کا شریک دار بنا لیا تھا ۔ اور اس بیس ہزار روپے کی ادائیگی کےلئے
اس کی نیت بدل گئی ۔اوردیپ چند کے اکثرتوجہ دلانے پر بھی وہ برابر ٹالتا رہا ۔ لیکن
اس کے لئے کاستحوں کے رواج کے مطابق ابھی اس کو دس ہزار روپیہ تلک میں دینا ہے ۔
ورنہ یہ سگاؒئی نہیں ہوسکتی ۔ لیکن مینجنگ ڈائریکٹر چاہتا ہے کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز
سے سفارش کرکے اس کی تنخواہ کو ڈھائی سو روپے ماہانہ سے ساڑھے تین سو کروا دے ۔ مگر
دیپ چند کو یہ رشوت منظور نہیں ہے ۔ اسے بیس ہزار روپیہ چاہیے ہے اس لئے کہ وہ اپنی
لڑکی کا بیاہ جلد ہی کردینا چاہتا ہے ۔
مینجنگ ڈائریکٹر کا چہرہ جھنجھلاہٹ کے اثر سے برا بر غضباناک ہوتاجا رہا ہے ۔ اس کی
کاروباری زندگی پر جاگیرداری کا روپ برابر حاوی ہوتا جارہا ہے۔
|