|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
پھرایکبارگی وہ
کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر سے صرف رانی بازار کے علاقہ کا کنور شیورراج سنگھ رہ گیا
۔ اس نے میز پر زورسے گھونسا مار کرکہا :
” تم میرے کمرے سے باہر نکل جاؤ “اور پھر وہ چیخ کر زور سے بولا ” جاؤ جو
تمہارے جی میں آئے کرو۔“
او ر منحنی جسم والا ناٹک کا مسخرہ مسکین سی شکل بنائے ہوئے خاموشی سے اٹھ کر
دروازے کے باہر چلا گیا ۔ کمرے کے اندر گہری خاموشی چھا گئی ۔ آتشدان میں دھکتے
ہوئے کوئلے کبھی کبھی چٹخنے لگتے ہیں ۔ اور باہر لان میں دیپ چند کے قدموں کی آہٹ
سنائی دے رہی ہے ۔ پھر وانچو نے اپنا بھدا پائپ میز پر رکھ دیا اور مینجنگ ڈائریکٹر
سے کہنے لگا:
” کنور صاحب یہ آپ نے کیا کردیا ؟“
”کچھ نہیں سب ٹھیک ہے م کل سویرے ہی اس کو نوٹس دے کر نوکری سے علیحدہ کردو۔“
وانچو گھبرا کربولا ” لیکن اس طرح سے کام تو نہیں چلے گا ۔ بلکہ اب تو وہ اور بھی
آسانی سے ہم کو بلیک میل کرسکتا ہے ، اس لئے کہ اس کے پاس ہمارے خلاف بہت سے
ڈکومینٹری ثبوت موجود ہیں ۔“
کنور شیوراج سنگھ گہری خاموشی میں کھو گیا ۔اور خود کو بڑے بے بس محسوس کرنے لگا ۔
پھر اس نے بڑی بے چارگی سے کہا ” اچھا تو اب کچھ تم ہی کرو۔“
وانچو کہنے لگا ، آپ ذرا اندر کوٹھی میں تشریف لے جائیں ، سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔
میرے ہوتے ہوئے بھلا آپ پر کوئی حرف آسکتا ہے ۔“
کنور شیوراج سنگھ نے خاموشی سے اس کی طرف دیکھا اور پھرکرسی پر سے اٹھ کر وہ آہستہ
آہستہ چلتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا ۔ اس کے چلے جانے کے بعد وانچو نے نیل کنٹھ کو
اندر کمرے میں بلایا اور اس سے کہنے لگا :
” نیل کنٹھ مہاراج ، دیکھو دیپ چندا بھی زیادہ دور نہ گیا ہوگا ۔ تم جاکر اس کو بلا
لاؤ ، کہنا کہ سیکرٹری صاحب نے بلایا ہے “ اور نیل کنٹھ تیز تیز قدموں سے کوٹھی
کے باہر چلا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ لوٹا تو اس کے ہمراہ دیپ چند بھی تھا ۔ نیل
کنٹھ پھرجاکر ورانڈے میں ٹھہرگیا اور وانچو دیپ چند سے کہنے لگا :
اکاؤٹنٹ صاحب آپ بھی خوب آدمی ہیں ۔ بوڑھے ہونے کو آگئے مگر مزاج پہچاننا آپ کو
ابھی تک نہیں نہیں آیا ۔ بھلا اس طرح بھی کوئی بات طے ہوتی ہے “
لیکن دیپ چند بھی کم سیانہ نہ تھا ۔ وہ پہلے ہی بھانپ گیا تھا کہ اس کا ” ترپ “
ٹھیک پڑا ہے ۔ اور اب وہ اس کے قابو سے نکل کر جانہیں سکتے ۔ اس دفعہ وہ بھی ذرا
نرمی سے بولا ” مگر سیکرٹری صاحب یہ تو دیکھئے کہ کنور صاحب تو میرا گلا کاٹنے پر
تلے ہوئے ہیں آ ہی بتائیے کہ میں کرتا بھی تو کیا ۔“
وانچو اپنے خاص انداز میں بننے لگا ” کمال کردیا آپ نے ۔ اتنا تو آپ جانتے ہی ہیں
کہ زندگی میں پہلی بار وہ اس کاروباری بکھیڑے میں آکر پھنسے ہیں ۔انہوں نے تو ہمیشہ
حکم چلائے ہیں اور اپنی جاگیر میں من مافی حکومت کی ہے ۔ دیکھئے رئیسوں سے بات کرنے
کا اور ہی گرہوتا ہے ۔ ان کے سامنے تو ہر بات پربس ہاں کرتے جائیے ، پھر جوکام جی
چاہے ان سے کرا لیجئے ۔“
اور دیپ چند نے جیسے اپنی غلطی کوتسلیم کرلیا ۔ ذرا پشیمانی کے سے انداز میں کہنے
لگا ” اب کیا عرص کروں سیکرٹری صاحب ۔ مجھے بھی اس واقت نامعلوم کیا سوجھی کہ ان کے
سامنے ذرا تیزی سے بات کرنے لگا ۔ دراصل میں اپنی لڑکی کی سگائی کے سلسلے میں ادھر
بڑا پریشان ہوں۔
|