|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
آپ جانتے ہی ہیں کہ میں بوایسر کا پرانا مریض ہوں ۔ روزبروز
تندرستی گرتی جارہی ہے ۔اپنی زندگی میں ہی اس کے ہاتھ پیلے کردوں، بس اب تو یہی لگن
ہے ۔“
وانچو ہمدردی کرنے لگا ” جی ہاں ، لڑکی کا ہونا بھی اس سوسائٹی میںاچھی خاصی مصیبت
ہی ہے ۔ لیکن بات کے اسی پہلو پر آپ نے زور دیا ہوتا تو بھلا کنور صاحب انکار
کرسکتے تھے ۔ انہوں نے لاکھوں روپےہ ریس بازی پر تباہ کیا ہے کیا اس کنیادان کے لئے
وہ کچھ نہ کرتے ۔ “
” اچھا تو اب آپ ہی بتائیے کہ میں کیا کروں ؟“
وانچو کہنے لگا ” کہئے گا کیا کنورصاحب نے جب آپ سے وعدہ کیا ہے تو آپ کو اپنا
روپیہ ملے گا ۔ “
منحنی جسم والے دیپ چند کے روکھے چہرے پر ایک بارگی زندگی کی رمق پیدا ہوگئی ۔ وہ
مسکراکر بولا ”تو پھر اس کام کو اب کراہی دیجئے سیکرٹری صاحب ! آپ کا بہت بڑا احسان
ہوگا ۔“
وانچو جلدی سے بولا ” آپ خواہ مخواہ مجھ کو شرمندہ کررہے ہیں ” پھر اس نے میز کی
دراز میں سے کنجی نکالی اور دیپ چند کے سامنے اس کو ڈال کر کہنے لگا ، لیجئے ذرا
سیف میں سے چیک بک نکال لیجئے ۔ میں آپ کےلئے ابھی چیک تیار کئے دیتا ہوں ۔ اس وقت
تو کنورصاحب کا موڈ بگڑا ہوا ہے م۔سویرے آفس پہنچنے سے پہلے ہی میں ان سے دستخط
کروا کے آپ کو چیک دے دوں گا ۔ آپ بالکل اطمینان رکھیں ۔ “
اوردیپ چند جیسے واقعی مطمئن ہوگیا ۔ اس نے کچھ بھی نہ کہا۔ اور چپ چاپ گھبرائے
ہوئے انداز میں کنجی اٹھائی اور دیوار کے پاس کھڑے ہوئے آہنی سیف کے پاس پہنچ گیا ۔
پھر دیپ چند نے اس کے اوپر لگے ہوئے گہرے سبزی مائل چھوٹے بلب کو دیکھا ۔ جو اپنی
ایک آنکھ سے اس کی طرف گھورہا تھا ۔ گویا خطرے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ اس نے تالے کو
کھول کر دروازے کو باہر کی طرف کھینچ لیا ۔ آہنی سیف کا اندرونی حصہ منہ پھاڑے ہوئے
نظر آنے لگا ۔ اور وانچو گردن موڑے ہوئے مجرمانہ نظروں سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا م
اورجیسے ہی دیپ چند نے آہنی سیف کے نچلے خانے کا ہینڈل مضبوطی سے پکڑ کر اس کو
کھولنا چاہااسی وقت وانچو نے دیوار میں لگے ہوئے سوئچ کو دبایا ۔ دیپ چند ایکا ایکی
بڑی بھیانک آواز سے چیخا ۔ پھر اس کے کراہنے کی دبی ، دبی آوازیں گہری خاموشی میں
بانپنے لگیں ۔ اور وانچو نے جھٹ سے کمرے کے اندراندھیرا کردیا ۔ آتشدان کی گہری سرخ
روشنی میںاس کا بے ہنگم سایہ سامنے والی دیوار پربڑا مہیب نظر آنے لگا ۔ دیپ چند کے
حلق کے اندر سے بلیوں کے غرانے کی سی خوفناک آوازیں نکل رہی تھیں ۔اور باہر فیکٹری
کے ورکشاپ میں لوہے کے ٹکرانے کی آسیب زدہ تاریکی میں کھڑا ہوا وانچو بڑا
پراسرارمعلوم ہورہا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں دہشت تھی اور اس کے گنجے سرپر پسینہ کی
نمی آگئی تھی ۔ پھر وہ خواب میں بھٹکنے والے سایوں کی طرح آہستہ آہستہ قدم رکھتا
ہوا آہنی سیف کے قریب جاکر ٹھہرگیا ۔ اور ذرا دیر تک بالکل ساکت کھڑے رہنے کے بعد
اس نے دیپ چند کی طرف دیکھا جس کاہاتھ ابھی تک ہینڈل سے الجھا ہوا تھا ۔ اوروہ فرش
پر خاموش پڑا ہوا تھا ۔ دھندی روشنی میں اس کی پھٹی ہوئی آنکھیں بڑی ڈراﺅنی معلوم
ہورہی تھیں ۔ لیکن وانچو خون خوار نگاہوں سے کھڑا ہوا اس کو چپ چاپ دیکھتا رہا ۔
پھر اس نے نیل کنٹھ کو آواز دی ۔ اور نیل کنٹھ سہمی ہوئی آواز میں بولا:
”کیا حکم ہے سیکرٹری ساب؟“
وانچوکہنے لگا ”جاؤ ورانڈے میں لگے ہوئے مین سوچ کو ”آف “کردو، اور اس کے بعد
کمرے کے اندر چلے آنا ۔“
باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔ پھر آہنی سیف پر جلتاہوا سرخ رنگ کا چھوٹا بلب بھی
بجھ گیا ۔ اب خطرے کی کوئی بات نہیں تھی ۔ اور اس کے ساتھ ہی دیپ چند کا ہاتھ ہینڈل
پر سے چھوٹ گیا اور اس کے بے جان جسم فرش پر ایک طرف کو لڑھک گیا ۔ پھر ذرا دیر بعد
کمرے کا دروازہ کھلا اور نیل کنٹھ اندر آگیا ۔ وانچو اس سے کہنے لگا :
” اس کو اٹھا کر باہر لان میں لے جاؤ ۔ میں ابھی ذرا دیر میں آتا ہوں اس کی آواز
میں دبی ہوئی تھرتھراہت تھی۔
|