|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
دوسرے دن فیکٹری کے تمام ڈیپارٹمنٹ بند رہے ۔ اس لئے کہ چیف اکاؤنٹنٹ دیپ چند کی
اچانک موت ہوگئی تھی ۔ اس کی لاش پاور ہاؤس کے اندر پائی گئی ۔ اس نے الیکٹرک
بھینرئیر کے سوئچ ”بس بار ‘کو غلطی سے چھو لیا تھا اور اس حادثہ سے وہ جانبرانہ
ہوسکا ۔ اس اطلاع کے ساتھ ہی فیکٹری کے یارڈ میں یہ بھی سرگوشیاں ہورہی تھیں کہ دیپ
چند نے خود کشی کرلی ہے ۔ اور اس کی وجہ جاننے کے لئے کتنی ہی قیاس آرائیاں ہورہی
تھیں ۔ لیکن سہہ پہر کوپروگرام کے مطابق ڈائریکٹرز کی میٹنگ ہوئی اور کنور شیوراج
سنگھ کی سفارش پردیپ چند کے بے سہارا خاندان کے لئے پانچ ہزار کی رقم گزارے کے لئے
منظور کردی گئی ۔
فیکٹری کی تعمیر ایکا ایکی مت پڑتی جارہی ہے ۔۔!
پھاگن کی مہکی ہوئی ہوائیں چلنے لگی ہیں اور ان تیز ہواﺅں میں سرموں کے گہرے زرد
پھولوں کی ڈالیاں جھومنے لگتی ہیں ۔ اور وہ کھیتوں میں جیسے بسنتی آنچل لہراجاتے
ہیں ۔ کھیتوں میں رات گئے تک ڈھولک اور جھانجنیں بجا کرتی ہیں اور ہولی کے راگ
اورنچے سروں میں گائے جاتے ہیں ۔ پھر گاؤں کے اندر بڑے بڑے الاؤ دھمکنے لگیں گے
اور عیر و گلال اڑنے لگے گا ۔ پھاگن کی ہوائیں چیختی پھررہی ہیں کہ ہولی آرہی ہے ،
ہولی آرہی ہے ۔ پھر کہیوں کی لہلہاتی ہوئی کھیتیاں کٹنا شروع ہوجائیں گی ۔ اوردور
کے شہروں میں کام کرنے والے گاؤں کے لوگ موسم سرما میں جھیلوں پر اکٹھا ہونے والے
آبی پرندوں کی طرح اپنی بستیوں میں آنا شروع ہوگئے ہیں۔ یونائیٹڈ انڈسٹریز لمیٹڈ کی
فیکٹری کے یارڈ میں مزدوروں کا شور روز بروز مدھم پڑتا جارہا ہے ۔ فصل کی کٹائی
کرنے کے لئے کمپنی کے سارے قلی دھیرے دھیرے فیکٹری کا کام چھوڑ کر بھاگنے لگے ہیں ۔
کمپنی نے گھبرا کر ان کی کئی ہفتہ کی مزدوری روک لی ہے ۔ اس بات سدے قلیوں کے روکھے
چہروں پر ہروقت جھنجھلاہٹ چھائی رہتی ہے ۔ وہ ٹائم کیپر آفس میں اکٹھا ہوکر ،زور ،ز
ور سے چلاتے ہیں ۔
”یہ مزدوری کیوں نہیں ملتی ، ایسا کیوں ہورہا ہے ؟“
” یہ سب کیا ہے ۔۔؟ہولی کا تہوار آرہا ہے ، ہم کو پیسہ چاہیے ہے “
” ہاں ، ہم کو اپنی مزدوری چاہیے ہے ، ہم کو اپنی مزدوری چاہیے ہے ۔“
لیکن مزدوری ابھی نہیں مل سکتی ، اس لئے کہ کمپنی چاہتی ہے کہ شوگر پلانٹ جلد ہی
تعمیر ہوجائے ۔ نہیں تو کمپنی کا بہت نقصان ہوجائے گا ۔مگر مزدور لوگ اس کے باوجود
بھی نہیں ٹہرتے ۔ وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں ۔ سب کو گالیاں دیتے ہیں ۔ پھرکسی
روزتاروں کی چھاؤ ں میں اٹھ کر اپنی بستی کو چل دیتے ہیں ۔ ان باتوں کو دیکھ کر
بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایمرجنسی میٹنگ بلائی گئی اور یہ طے ہوا کہ قلی لوگوں کا ریٹ
بڑھا دیا جائے ۔ اس لئے کہ فیکٹری کی تعمیر میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونا چاہیے ۔
پھراس کے بعد مزدوری کے ریٹ بڑھنا شروع ہوگئے ۔
ایک روپیہ چھ آنے یومیہ !
ایک روپیہ دس آنے یومیہ !
ایک روپیہ چودہ آنے یومیہ !
مگر ان تین ہفتوں میں ریٹ بڑھانے کا تجربہ بھی کچھ کار کرثابت نہ ہوا ۔ بلکہ ہولی
کا الاؤ دھمکتے ہی مزدوروں نے اور بھی تیزی سے کام پر سے فرار ہونا شروع کردیا۔
ہر روز ٹائم کیپر ، رجسٹر لے کر مینجنگ ڈائریکٹر کے آفس میں جاتا ،اور سہمی ہوئی سی
آواز میں رپورٹ سنایا ۔ مینجنگ ڈائریکٹر جھنجھلا کر مزدوروں کے ساتھ سہمے ہوئے ٹائم
کیپر کو بھی گالیاں دینے لگتا ۔ پھر ایک روز اس نے وانچو کو اپنے دفتر میں بلایا ،
اور پریشانی کے عالم میں کہنے لگا:
|