|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
” مسٹر وانچو آخریہ سب کیا ہورہا ہے ۔ یہ ریٹ اس طرح کب تک بڑھایا جائے گا ۔ “
مگر وانچو بھی کچھ گھبرایا ہوا نظر آرہا ہے ،وہ آہستہ آہستہ کہنے لگا :” کچھ سمجھ
میں نہیں آرہا ہے کنور صاحب ، بات یہ ہے کہ یہ ترائی کا علاقہ ہے ” یہاں کی زمین
بڑی زرخیز ہے ۔اس دفعہ یہی سن رہا ہوں۔ کہ فصلیں بہت اچھی رہی ہیں ۔راشن کا زمانہ
ہے ،کسانوں کے ٹھاٹھ ہوگئے ہیں ۔ اب انہیں یہ فیکٹری کی نوکری کیا اچھی لگے گی اور
یہ زمینداری ابالیشن کی خبروں نے تو ان کا اور بھی دماغ خراب کردیا ہے ۔“
وہ اور بھی پریشان ہوکر بولا ” تم نے پوری کتھا سنانا شروع کردی ۔اس طرح کیسے کام
چلے گا ۔ یہ بتاؤ کہ لیبرکا کیسے بندوبست ہو ۔“
وانچو ذرا دیر تک مینجنگ ڈائریکٹر کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا ۔ پھر وہ بڑے اعتماد
سے بولا” میری سمجھ میں تو ایک ہی بات آتی ہے ، لیکن اس میں خطرہ بھی ہے اور روپیہ
بھی اچھا خاصہ خرچ ہوگا۔“
مینجنگ ڈائریکٹر جلدی جلدی کہنے لگا ” ذرا اپنے آپ کو بچا کر کام کرنا اور روپیہ کی
تم فکر نہ کرو ، میں ڈائریکٹروں سے نبٹ لوں گا ۔ اور یوں بھی کچھ کم خرچ ہورہا ہے ۔
اگر آئندہ سیزن تک فیکٹری اسٹارٹ نہ ہوئی تو یہ سمجھ لو کہ کمپنی دیوالیہ ہوجائے گی
۔“
وانچو پوچھنے لگا”آپ کے خیال میں یہ بنگالی کیمسٹ سانیال کیسا آدمی ہے ، اس پر
اعتبار کیا جاسکتا ہے؟“
وہ گردن ہلاکر بولا ” میں سمجھتا ہوں کہ آدمی تو وہ کام کا ہے ۔ انارکسٹ پارٹی میں
کئی سال تک رہ چکا ہے ۔ انہی دنوں پولیس نے ایک بار گرفتار کرلیا تھا ۔بہت بری طرح
اس کو ٹارچر کیا مگر اس نے ذرا سا بھی سراغ نہ دیا ۔ تم اس پر اعتبار کرسکتے ہو۔“
پھر وانچو نے چپراسی کو آواز دی اور اس کو سانیال کے بلانے کے لئے بھیج دیا ۔ تھوڑی
ہی دیر کے بعد بھدے چہرے والا کیمسٹ دفتر کے اندرآگیا ۔وانچو نے خاموشی کے ساتھ اس
کا گہری نظروں سے جائزہ لیا اورپھر پوچھنے لگا ۔ ” مسٹر سانیال ، نومبر کے مہینہ
میں آپ کمپنی کے کام سے بمبئی گئے تھے اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ، وہاں آپ نے
گورنمنٹ لیبارٹری سے بھی کچھ مشورہ کیا تھا وہاں کوئی آپ کا جاننے والا تو نہیں ہے
؟“
بھدے چہرے والا سانیال ذرا دیر تک غورکرنے کے بعد بولا ”جی ہاں ! میری وائف کے ایک
رشتہ دار اس میں کام کررہے ہیں ، جن کے فلیٹ میں دوروز تک ٹھہرا بھی تھا ۔“
اور وانچو کا گھبرایا ہوا چہرہ ایک بارگی جیسے ومک اٹھا ۔ وہ چنگی بجا کر بولا ”
پھر تو سب کچھ ٹھیک ہے ۔ دیکھئے آج رات کی گاڑی سے آپ دھلی چلے جائیں اور وہاں سے
ہوائی جہاز کے ذریعہ بمبئی پہنچ جائیے ، آپ کو گورنمنٹ لیبارٹری کے ذریعہ ایک بڑا
اہم کام کرنا ہے “ اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر اس نے ٹیلیفون اٹھا کر دھلی
کے واسطے سیٹ کی ریزرویشن کے لئے اسٹیشن ماسٹر سے گفتگو کی اورسہ پہرتک دس ہزار
روپے کا ڈرافٹ بنوا کر اس کو دے دیا ۔ پھر شام کے وقت مینجنگ ڈائریکٹر کی کوٹھی پر
سانیال ، وانچو کے ساتھ بند کمرے کے اندر دیر تک راز دارانہ باتیں کرتا رہا اور
پروگرام کے مطابق شب کی ٹرین سے دھلی روزانہ ہوگیا ۔
پانچویں دن فیکٹری میں سانیال کا بمبئی سے ٹیلیگرام آیا ، لکھا تھا ” ہارڈویئر کا
بازار بہت خراب ہے ۔ کرشنگ سلنڈر ابھی تک نہیں ملا “ وانچو نے تار کو کئی بار پڑھا
اور اپنے دفتر میں خاموش بیٹھا ہوا اس ” کوڈنیوز “پر غور کرتا رہا ۔ پھر کئی
روزاورگزر گئے لیکن کوئی اطلاع نہ ملی ۔ اور وانچو کی بے چینی بڑھنے لگی ۔ اس
پریشانی میں اس کے رخساروں کی ابھری ہوئی ہڈیاں اوربدنما معلوم ہونے لگی تھیں ۔ پھر
ایک روز فیکٹری کا کیمسٹ سراسیمگی کے عالم میں اس کے دفتر میں داخل ہوا ۔ اس کے
چہرے کے بھدے نقوش گھبراہٹ سے دھندلے معلوم ہورہے تھے ۔ وانچو کرسی پر خاموش بیٹھا
ہوا اس کو غور سے دیکھتارہا ۔ پھر اس نے آہستہ سے پوچھا ۔
” کیا خبر لائے ہو؟“
|