|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
”کام تو بن گیا ؟“
وانچو مسکرانے لگا ” تو پھر تم اتنے پریشان کیوں ہو؟“
سانیال دروزاہ کی طرف مڑ مڑ کر دیکھنے لگا ۔ پھر اس کے قریب جھک کرکہنے لگا ۔ مجھے
ایک شخص پرشبہ ہواہے کہ وہ بمبئی سے میرا پیچھا ررہا ہے “ وانچوملحظہ بھر کے لئے
گہری خاموشی میں ڈوب گیا ۔ پھر اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا :
”اچھا آپ جاکرذرا سا نہا دھوکر آرام کیجئے ۔ اس قظدر گھبرانے کی کوئی بات نہیں سب
کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔
سانیال ذرا دیر تک خاموش کھڑا رہا پھر دفتر سے باہر چلا گیا ۔ اور وانچو آہستہ
آہستہ چلتا ہوا کھڑکی کے قریب آکر کھڑا ہوگیا ۔ بھدے چہرے والا کیمسٹ فیکٹری کے
پھاٹک سے نکل کر اپنے کوارٹر کی طرف جارہا تھا ۔ وانچوچپ چاپ کھڑا ہوا اس کو دیکھتا
رہا اور جب ایک موڑ پروہ نطڑوں سے اوجھل ہوگیا تو وہ پھر اپنی پر میز آگیا ۔ اور
ٹیلیفون اٹھا کر مینجنگ ڈائریکٹر کو رنگ کیا ۔ وہ کوٹھی پر موجود تھا۔ وانچو نے
بنگالی کیمسٹ کے آنے کی اس کو اطلاع دی اورخود بھی دفتر سے نکل کر کنورصاحب کی
کوٹھی کی طرف چل دیا ۔
اورجب رات ذرا ڈھل گئی، اور گہرے سناٹے میں دونوں کا شور تیز ہوگیا ، تو وانچو نے
فیکٹری کی جیپ اسٹارٹ کی جس کی پچھلی سیٹ پر آبنوسی جسم والا نیل کنٹھ خاموش بیٹھا
ہوا تھا ۔فیکٹری کے احاطہ سے نکل کر جیپ روشن نگر روڈ کی طرف مڑ گئی ۔ تیزہ میل تک
پختہ سڑک ہے ، اس لئے جیپ سنسناتی ہوئی تیز ی کے ساتھ گزرتی رہی ۔ مگر جب ناہموار
پتھریلی سڑک آگئی تو جیپ کو جھٹکے لگتے اور وہ کھڑ کھڑانے لگتی ۔ لیکن وانچو خاموشی
سے بیٹھا ہوا اس کو ڈرائیو کرتا رہا ۔ ا س کے چہرے پر بڑا پراسرار سکوت چھایا ہوا
ہے ۔اور نیل کنٹھ پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا سوچتا رہا کہ جھٹکوں سے اس کا سر بوجھل
ہوتا جارہا ہے ۔ باہر پھاگن کی ہوائیں چل رہی ہیں ۔ پھاگن کی ہوائیں جو ہولی کا
سندیسہ لاتی ہیں ۔ اور ہولی جو اب ختم ہوچکی ہے ۔ اب ختم ہوچکی ہے ۔ اب توگیہوں کی
فصلیں کٹرہی ہیں ۔ اور ھنسیا کی تیز باڑھ سے لہلہاتی ہوئی گیہوں کی بالیاں کھیتوں
میں ڈھیر ہوجاتی ہیں ۔ جانے اشیر گڑھ کے خوبصورت گاؤں میں اب نیل کنٹھ مہاراج کو
کوئی یاد کرتا ہے ۔ جس کی کٹائی کا چوپال پر بڑا چرچا رہا کرتا تھا ورایکاایکی
بانبی کی لے پر جھومنے والے ناگ کی طرح وہ بے ہوشی کےع عال میں بڑبڑانے لگا ۔
” میں ایک کسان ہوں،ہاں میں کسان ہوں!“
پھر کسی نے فوراً ہی اس کاگلا دبوچ لیا، نہیں تو مجرم ہے ، تو مجرم ہے ۔ پولیس تیرا
وارنٹ لئے ابھی تک تلاش کررہی ہے۔
نیل کنٹھ نے چونک کر دیکھا ،سامنے وانچو اطمینان سے ایسٹرینگ پر بیٹھا ہوا تھا ۔
اور پتھریلی سڑک پر جیپ ہچکولے کھارہی تھی۔ اور ستاروں کی مدہم روشنی میں کو مستانی
چٹانیں سایوں کی طرح کوسوں تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ پھر ایک بارگی وانچو نے جیپ کونیچے
ڈھلوان پر گھما دیا ۔نیل کنٹھ گھبرا کر اپنی سیٹ سے چمٹ گیا ۔ لیکن جیپ ڈگمگاتی
ہوئی آہستہ آہستہ گنجان درختوں کے نیچے کچھ دور تک چلتی رہی ۔ اور پھرگہرے اندھیرے
میں جاکر ٹہر گئی ۔ اور دونوں اتر کرنیچے آگئے ۔ وانچو نے آگے والی سیٹ کے نیچے سے
ڈائنا مائٹ کے بھاریگیس کو باہر نکالا ۔ یہ ڈائنا مائٹ جس کو فیکٹری کا کیمسٹ بمبئی
سے اپنے ہمراہ لایا تھا ۔ جس کو گورنمنٹ لیبارٹری سے مگل کیا گیا تھا او ر جس پر
کمپنی کا نوہزار سے زائد روپیہ خرچ ہوا تھا۔ پھر نیل کنٹھ نے اس کو اپنے مضبوط
ہاتھوں میں سنبھال لیااور دونوں اندھیرے میں چلنے لگے ان کے قدموں کے نیچے خشک پتے
کھڑکھڑارہے تھے اور درختوں سے الجھتی ہوئی کوہستانی ہوائیں بانپتی ہوئی معلوم ہورہی
تھیں ۔ اندھیرا بہت گہرا تھا اورپتھریلی چٹانوں میں بسنے والی کو کیلا ندی کا شور
سنائی دینے لگا تھا دونوں اسی طرح کئی فرلانگ تک چلتے رہے ۔ پھر ایک جھکے ہوئے ٹیلے
پر سے گذرکر جب وہ نشیب میں پہنچے تو پتھروں سے ٹکراتا ہوا دریا کا شور بڑا ہیبتناک
معلوم ہونے لگا تھا اس وادی میں کیلا ندی کا بہاؤ بہت تیز ہے ۔ دونوں طرف سر بلند
کوہسار ہیں اور جہاں پر دریا کا دھارا بہت تیز ہوگیا ہے ، اس مقام پر سرکاری ڈیم
بنا ہوا ہے ۔ گورنمنٹ نے ہائیڈروالیکٹرک پیدا کرنے کے لئے اس کوتعمیر کروایا ہے ۔
اس باندھ کے پاس پانی گرجتا ہوا اونچائی پر سے گرتا ہے۔ اورقریب ہی میں پتھروں کی
بنی ہوئی چھوٹی سے عمارت ہے جس کے سامنے دو پہریدار سنگینوں کو سمبھالے ہوئے مستعدی
سے کھڑے رہتے ہیں۔
|