|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
پھر وانچو کی ہدایات کے مطابق نیل کنٹھ ، ڈاینا مائٹ کو سنبھالے ہوئے ، آہستہ آہستہ
بکھرے ہوئے پتھروں پر چلنے لگا ۔ اورپھر وانچو ، اس کے وائر کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے
، پتھریلی چتانوں کے اندھیرے میں بیٹھا رہا ۔ اس کی تیکھی نظریں سامنے پتھروں پر
جاتے ہوئے نیل کنٹھ کا پیچھا کرتی ہیں ۔ ڈیم کے پاس پہنچ کر ، اچانک وہ اندھیرے میں
غائب ہوگیا ۔ اور دریائے کو کیلا کا تیز دھارا ڈیم کے نیچے گرجتا رہا ۔ اس مہیب شور
میں پھاگن کی ہوائیں جیسے سوگئی تھیں اورسربلند کوہسار خوابوں میں ڈھکے ہوئے معلوم
ہورہے تھے ۔ پھر ایکا ایکی ڈیم کے اوپر ایک دھندلی روشنی میں ایک انسانی سایہ
لہرایا اور اسی وقظت پتھریلی عمارت ک نزدیک کھڑے ہوئے پہریدار نے چیخ کر کہا ۔
”ھالٹ “
”ھے کو ن ہے ، ٹھہر جاؤ“
اور اس کے ساتھ ہی بندوق کی تیز آواز وادی کے اندر دھڑکنے لگی ۔ لیکن نیل کنٹھ آہنی
گارڈ سے چمٹا ہوا ڈائنا مائٹ کو ”فٹ “ کرتا رہا ۔ گولی اس کی کنپٹی کے پاس سے
ایکبار زن سے گزر گئی ۔ وانچو اندھیرے میں بیٹھا ہوا سہمی نظروں سے ڈیم کی طرف
دیکھتا رہا ۔ ایک دفعہ پھربندوق کی آواز کوہستانی چٹانوں میں چیخنے لگی ۔ اور اس کی
دھڑکن کوہساروں کی گہرائی میں دیر تک ہانپتی رہی ۔ وانچو کا جسم تھرتھرا کر رہ گیا
پھر ایک دم سے ڈائنا مائٹ کا وائر زور زور سے بلنے لگا ۔ گویا اب اپنا کام شروع
کردینا چاہیے مگر نیل کنٹھ ابھی تک کہیں نظر نہیں آرہا تھا ۔
کوئی ایک منٹ اس کے انتظار میں گزر گیا ۔
پھر کئی منٹ نڑی بے چینی کے عالم میں گزر گئے !!
وانچو نے ایک بارگی جھنجھلا کر سوچا کہ وہ ڈیم کو اڑا دے ۔ اس لئے کہ اب زیادہ
تاخیر کرنا بہت خطرناک تھا۔ لیکن خطرے کے شدید احساس کے باوجود بھی وہ کچھ طے نہ
کرسکا اس لئے کہ اگر نیل کنٹھ ڈیم کی تباہی کےساتھ وہیں مرگیا اوربعد میں اس کی لاش
شناخت کرلی گئی تب تو بہت بڑا خطرہ پیدا ہوجاتا ۔ اور یہی سوچ کر وہ برے اذیت ناک
لمحوں میں سے گزرتا رہا اورسامنے ڈیم کی طرف دیکھتا رہا آخر رات کی مدھم روشنی میں
نیل کنٹھ کا کبڑا جسم نظر آیا وہ پتھروں پر جھکا ہوا آہستہ آہستہ آرہا تھا جب وہ
بالکل قریب آگیا تووانچو نے آہستہ سے صرف اس قدرپوچھا ” سب ٹھیک ہے ! “ اور نیل
کنٹھ نے اثبات میںاپنی گردن ہلادی ۔ وانچو بے نزئد تاخیر کئے بغیر ایک بارگی ڈائنا
مائٹ کو ،آن ، کردیا اور پھر کوہستانی وادی میں بڑی ہیبتناک گھڑگھڑاہٹ پیدا ہوئی
اور خوابوں میں ڈھکی ہوئی سربلند پہاڑیاں لرزنے لگیں ۔ سرکاری ڈیم چیتھڑوں کی طرح
بکھر کررہ گیا اوردریائے کوکیلا کا دھارا بڑی تیزی سے نشیب میں بہنے لگا۔
نیلی آنکھوں والا وانچونیل کنٹھ کو اپنے ہمراہ لے کر درختوں کے گہرے اندھیرے میں
تیز تیز قدموں سے چلنے لگا ۔ مگر نیل کنٹھ ہر قدم پرلڑکھڑا جاتا ۔ اس کے کندھے پر
سے برابرخون بہہ رہا تھا ، جو گولی سے بری طرح زخمی ہوگیا تھا اور جب وہ جیپ کے پاس
پہنچا تو اس کے پیر بالکل بے قابو ہوچکے تھی ۔ وہ ڈگمگاتا ہوا بے جان ہوکرپچھلی سیٹ
پر گرپڑا۔ جیپ اسٹارٹ ہوگئی ۔ راستہ بھر وہ کراہتا رہا اوراس کے زخم سے خون بہتا
رہا ۔جیپ ہچکولے کھاتی تیزی سے گزرتی رہی ۔ اور جب وہ فیکٹری کے اندر پہنچے تو نیل
کنٹھ پر بے ہوشی کی سی کیفیت طاری تھی ۔اس کا آبنونسی جسم،چھپکلی کی طرح زردی مائل
ہوگیا تھا ۔ اور اسی لئے کوارٹر میںبیھنے کی بجائے اس کو مینجنگ ڈائریکٹرکی کوٹھی
پر ٹہرادیا گیا ۔ دریائے کوکیلا پربنے ہوئے ڈیم کے اس طرح تباہ ہوجانے پر ترائی کے
علاقہ میں بڑی سنسنی پھیل گئی ہے ۔ اورسرکاری حلقوں میں بڑا تہلکہ مچ گیا ہے ۔اس
لئے کہ اس ”باندہ“ کی تعمیر پر گورنمنٹ کاکروڑ روپیہ خرچ ہو تھا ۔ تحقیقات کرنے کے
لئے تمام سرکاری افسروں نے بڑی دوڑ دھوپ شروع کردی ہے ۔ ڈاک بنگلہ کی مرمت ہورہی
تھی۔ اس لئے فیکٹری کے” گیسٹ ہاؤس “ میں سب لوگ ٹھہرے ہوئے ہیں ، اوربڑی سرگرمی
کے ساتھ تفتیش ہورہی ہے۔
|