|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
ہر مشبتہ آدمی کو حراست میں لے کر پولیس بری طرح ”ٹارچر“
کررہی ہے ۔ اور انہیں دنوں اچانک ریونیو منسٹر کا داماد نرائن ولبھ فیکٹری میں آگیا
۔ وہ کمپنی کا سب سے اہم ڈائریکٹر ہے ۔ رات کو مینجنگ ڈائریکٹر کے پرائیویٹ کمرے
میں جب وہ اس کے پاس پہنچا تو ایک دم سےاس پر برس پڑا ۔
”کنورصاحب یہ آپ نے سب کیا کرکے رکھ دیا ہے ۔ مجھے ایسا جان پڑتا ہے کہ یہ فیکٹری
اب برباد ہونے والی ہے ۔“
مینجنگ ڈائریکٹر پہلے ہی سرکاری افسروں کی آمد سے بوکھلایا ہوا تھا ۔ نرائن و لبھ
کی باتوں پر وہ اور بھی بدحواس ہوگیا ۔آہستہ سے بولا ” بھئی میری سمجھ میں تو کچھ
نہیں آرہا ہے ۔ میں تو یہاں سے بڑا عاجر آگیا ہوں ۔“
مگر وہ کہتا ہی رہا ” اب تو آپ ایسا کہیں گے ہی ۔ مگر آپ کوکم سے کم یہ تو سوچنا
چاہیے تھا کہ گورنمنٹ کا انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ اتنا احمق تو نہیں کہ اتنی بڑی بات کو
بھی نہ سمجھ سکتا ۔ ہوم سیکرٹری کے پاس جو رپورٹ پہنچی ہے اس میں اس فیکٹری پر بھی
شبہ ظاہر کیا گیا ہے ۔اس لئے کہ ادھر جو لیبر کی بالکل کمی نہیں شبہ کرسکتا ہے ۔
دراصل ہوابھی ایسا ہی ہے اس لئے کہ اب کمپنی کو قلیوں کی تلاش میں اپنے ایجنٹ
گردونواح کی بھیڑ لگی رہتی ہے ۔ کمپنی کا لیبر آفیسر ہر روز سویرے صرف پچاس آدمیوں
کو اندربلاتا ہے ۔ اور وہ اس کے سامنے قطار بنا کر خاموش کھڑے ہوجاتے ہیں وہ ہر ایک
کا جسم ٹٹول کر گوشت کے مضبوط پٹھوں کااندازہ لگاتا ہے ۔اورجس آدمی کو وہ فٹ سمجھتا
ہے اس کی چوڑی چکلی چھاتی پر کھریاسے سفید نشان بنادیتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
اب اس کو فیکٹری میں کام مل گیا ہے اور چودہ آنے روز مزدوری ملے گی ۔ا اس کا نام
اور پتہ ٹائم کیپر کے رجسٹر میں درج کردیا جاتا ہے ۔ پھاٹک کے باہر کھڑے ہوئے لوگ
جانوروں کی طرح گردن اٹھا ، اٹھا یہ سب کچھ دیکھتے ہیں اور سہمے ہوئے لہجہ میں
آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہیں ........!!
مینجنگ ڈائریکٹر اور بھی گھبراگیا ۔ وہ بڑے شکست خوردہ لہجہ میں کہنے لگا ” مجھے
کیا معلوم تھا کہ یہ سب کچھ بھی ہوجائے گا ۔ وانچو تومجھ سے برابر یہی کہتا رہا کہ
کوئی خطرے کی بات نہیں ۔ سب ٹھیک ہوجائے گا “ اس طرح وانچو پر سارا الزام رکھ کر وہ
جیسے کس قدر مطمئن ہوگیا اور اس بات کا اثر بھی ٹھیک ہی ہوا ۔یوں بھی کمپنی کا
مینجنگ ڈائریکٹر ہونے کے علاوہ وہ رانی بازارکے علاقہ کا جاگیردار بھی تھا ۔ اس لئے
نرائن ولبھ ایک دم سے وانچو پر بگڑنے لگا ........
” وہ تو میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ وانچو مجھ کو بڑا خطرناک آدمی معلوم پڑتا ہے
۔ آپ اس کی سازشوں کو نہیں سمجھ سکتے ۔ دیکھئے اب یہی سب سے بہتر طریقہ ہے کہ وانچو
کو اسی اشوع پر فیکٹری سے فوراً علیحدہ کردیاجائے ۔ ورنہ جب تک وہ یہاں موجودہے ہر
وقت خطرہ سامنے ہے آپ پریشان نہ ہوں ، میں سب کچھ سنبھال لوں گا ........“
مینجنگ ڈائریکٹر گہری خاموشی میں کھوگیا اس لئے کہ وہ کسی طرح یہ نہیں چاہتا کہ
وانچو اس کے خلاف ہوجائے وہ اس کے ہر خطرناک راز کو جانتا ہے ۔ اس طرح نوکری سے
برطرف ہوجانے پر اس کا برگشتہ ہوجانے کا پورا خوف تھا۔تھوڑی دیر تک اسی طرح چپ رہنے
کے بعد وہ کہنے لگا ” میں تو سوچ رہا تھا کہ اس بات پراگر وہ کمپنی کا مخالف ہوگیا
تو سرکاری گواہ بن کربہت بڑی مصیبت بن سکتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ کسی اور طریقہ سے
اس کو یہاں سے ابھی ہٹادیاجائے ۔ بعد میں دیکھا جائے گا “ اور یہ بات نرائن ولبھ
ایم ، ایل ،اے کی سمجھ میں بھی آگئی ۔ اور پھر دونوں کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے
دیر تک کمرے کے اندر بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے ........
اورجب نرائن و لبھ کمرے سے باہر چلا گیا تو کنور صاحب نے وانچو کوبلوالیا ۔ اور
ساری باتیں اس کو بتادیں ۔ اورپھریہ طے ہوا کہ وہ نیپال کی راجدھانی کا ٹمنڈو چلا
جائے سرحد کو پار کرنے میں کوئی مشکل نہ ہوگی اس لئے کہ رانا دلیر جنگ جو ریاست کے
ایک اہم رکن تھے ، وہ کنور صاحب کی شکار گاہوں میں اکثر شکار کھیل چکے تھے او ر
دونوں کے آپس میں بڑے اچھے مراسم تھے ۔ اورجب تک کاٹمنڈو میں رہے گا اس کو برابر
ایک ہزار روپیہ مہینہ مینجنگ ڈائریکٹر کی طرف سے ملتا رہے گا ۔ پھر ایک روز فیکٹری
کی کار میں بیٹھ کر وہ اسٹیشن کی طرف چل دیا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔
|