|
تیسرا آدمی
(شوکت صدیقی)
دفتر میں کام کرنے والے صرف اسی قدر جانتے ہیں کہ وہ کمپنی کے کسی ضروری کام کے
سلسلہ میں کلکتہ جارہا ہے اور وانچوکار میں خاموش بیٹھا ہوا دورہوتی ہوئی فیکٹری کی
عمارت کو دیکھتا رہا ، جس کی تعمیر کے لئے اس نے خطرناک سازشیں کی تھیں اور وہ
فیکٹری اس کی آنکھوں سے دور ہوتی جارہی تھی اس کی گہری نیلی آنکھیں بڑی پراسرار
معلوم ہوتی تھیں........
سرکاری ڈیم تباہ ہوجانے کی وجہ سے کوکیلاندی میں بڑا بھیانک طوفان آگیا ہے ۔ بھپری
ہوئی لہریں ترائی کے میدانی علاقوں میں ،شب خون مارنے والے غنیم کی طرح پھیلتی
جارہی ہیں ۔ گیہوں کی لہلہاتی فصلیں پانی کے بہاؤ میں بہہ گئی ہیں ۔ ساری بستیاں
ویران ہوتی جارہی ہیں ۔اور تباہ حال کسان اپنے گھروں کو چھوڑ چھوڑ کربھاگ رہے ہیں
اور راحیل روڈ پر مریل انسانوں کے قافلے گزرتے ہیں ۔ اس لئے کہ سیلاب زدگان کے لئے
امیر گڈہ میں سرکار نے رلیف کیمپ قائم کردیا ہے ۔ اس سلسلہ میں گورنمنت کا جو پریس
نوٹ شائع ہوا ہے ، اس میں اعلان کیا گیا ہے کہ اس تباہی میں کمیونسٹوں کی دہشت
پسندی کو دخل ہے ۔ جو اپنے سیاسی مفاد کے لئے ملک میںبے اطمینانی اور ہیجان پیدا
کرانا چاہتے ہیں ۔ اور اس لئے پولیس نے کسان سبھا کے دفتر پر چھاپہ مارکرکتنے ہی
کسان ورکروں کو حراست میں لے لیا ہے ۔
نیل کنٹھ کنور صاحب کی کوٹھی کے ایک مختصر سے کمرے میںلیٹا ہوا آہستہ آہستہ کراہ
رہا ہے ۔ اس کے کندھے پرسفید پٹیاں بندھی ہوئی ہیں ۔ اور اس کا مضبوط پٹھوں والا
آبنوسی جسم چھپکلی کی مانند زردی مائل ہوگیا ہے ۔ خون کے زیادہ بہہ جانے سے اس
پربار، بار غشی کے دورے پڑتے ہیں اور کنور صاحب نے کمپنی کی طرف سے کمشنر کے اعزاز
میں اپنی خوبصورت کوٹھی پر ایک شاندارڈنرکا انتظاعم کیا ہے ۔ جس کا ہنگامہ رات گئے
تک فیکٹری کے اندرگونجتا رہا۔
|