|
توبہ شکن
(بانو قدسیہ)
بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔
”مجھے کوئی خوشی راس نہیں آتی۔ میرا نصیب ہی ایسا ہے۔ جو خوشی ملتی ہے۔ ایسی ملتی
ہے کہ گویا کوکا کولا کی بوتل میںریت ملا دی ہو کسی نے۔“
آنکھیں سرخ ساٹن کی طرح چمک رہی تھیں اور سانسوں میں دمے کے اکھڑے پن کی سی کیفیت
تھی۔ پاس ہی پپو بیٹھا کھانس رہا تھا۔ کالی کھانسی نا مراد کا حملہ جب بھی ہوتا
بیچارے کا منہ کھانس کھانس کر بینگن سا ہوجاتا۔منہ سے رال بہنے لگتا اور ہاتھ پاؤں اینٹھ سے جاتے۔ امی سامنے چپ چاپ کھڑکی میں بیٹھی ان کو یاد کر رہی تھیں۔جب وہ
ایک ڈی سی کی بیوی تھیں اور ضلع کے تمام افسروں کی بیویاں ان کی خوشامد کرتی تھیں۔
وہ بڑی بڑی تقریبوں میں مہمان خصوصی ہواکرتیں، اور لوگ ان سے درخت لگواتے، ربن
کٹواتے....انعامات تقسیم کرواتے۔
پروفیسر صاحب ہر تیسرے منٹ مدھم سی آواز میں پوچھتے....”لیکن.... آخر بات کیا ہے بی
بی....ہواکیا ہے....
وہ پروفیسر صاحب کو کیا بتاتی کہ دوسروں کے اصول اپنانے سے اپنے اصول بدل نہیں جاتے
صرف ان پرغلاف بدل جاتا ہے۔ ستار کاغلاف، مشین کا غلاف، تکیے کا غلاف....درخت کو
ہمیشہ جڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اسے کرسمس ٹری کی طرح یونہی داب داب کر مٹی میں
کھڑاکردیں گے تو کتنے دن کھڑا رہے گا۔ بالآخر تو گرے ہی گا۔
وہ اپنے پروفیسر میاں کو کیا بتاتی کہ اس گھر سے رسہ تڑوا کر جب وہ بانو بازار
پہنچی تھی اور جس وقت وہ ربڑ کی ہوائی چپلوں کا بھاؤ چارآنے کم کروا رہی تھی تو
کیا ہوا تھا؟
اس کے بوائی پھٹے پاؤں ٹوٹی چپلوں میں تھے۔ ہاتھوں کے ناخنوں میں برتن مانجھ
مانجھ کر کیچ جمی ہوئی تھی۔ سانس میں پیاز کے باسی لچھوں کی بوتھی۔ قمیض کے بٹن
ٹوٹے ہوئے اور دوپٹے کی لیس ادھڑی ہوئی تھی۔ اس ماندے حال جب وہ بانو بازار کے ناکے
پر کھڑ ی تھی تو کیاہوا تھا؟
یوں تو دن چڑھتے ہی روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا تھا پر آج کا دن بھی خوب رہا۔ ادھر
پچھلی بات بھولتی تھی ادھرنیا تھپڑ لگتا تھا۔ ادھر تھپڑ کی ٹیس کم ہوتی تھی ادھر
کوئی چٹکی کاٹ لیتا تھا۔ جو کچھ بانو بازار میں ہوا وہ تو فقط فل سٹاپ کے طور پر
تھا۔
صبح سویرے ہی سنتو جمعدارنی نے برآمدے میں گھستے ہی کام کرنے سے انکار کردیا۔ رانڈ
سے اتنا ہی تو کہا تھا کہ نالیاںصاف نہیں ہوتیں۔ ذرا دھیان سے کام کیا کر۔ بس جھاڑ
و وہیں پٹخ کر بولی۔
”میرا حساب کردیں جی....“
کتنی خدمتیں کی تھیں بد بخت کی۔ صبح سویرے تام چینی کے مگ میں ایک رس کے ساتھ چائے۔
رات کے جھوٹے چاول اور باسی سالن روزکا بندھا ہوا تھا۔ چھ مہینے کی نوکری میں تین
نائلون جالی کے دوپٹے۔ امی کے پرانے سلیپر اور پروفیسر صاحب کی قمیض لے گئی تھی۔
کسی کو جرات نہ تھی کہ اسے جمعدارنی کہہ کر بلا لیتا۔ سب کا سنتو سنتو کہتے منہ
سوکھتا تھا۔ پر وہ تو طوطے کی سگی پھوپھی تھی۔ ایسی سفید چشم واقع ہوئی کہ فوراً
حساب کر۔
|