|
آنندی
(غلام عبّاس)
دکان کو پر کرنے کے لئے بڑھیا اور اس کا لڑکا سگریٹوں کے
بہت سے ڈبے اٹھا لائے اور اسے منبر کے طاقوں میں سجا کر رکھ دیا گیا۔ بوتلوں میں
رنگ دار پانی بھر دیا گیا تاکہ معلوم ہو کہ شربت کی بوتلیں ہیں۔ بڑھیا نے اپنے بساط
کے مطابق کاغذی پھولوں اور سگریٹ کی ڈبیوں سے بنائی ہوئی بیلوں سے دکان کی کچھ
آرائش بھی کی، بعض ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی تصویریں بھی پرانے رسالوں سے نکال کر
لئی سے دیواروں پر چپکا دیں۔ دکان کا اصل مال دو تین قسم کے سگریٹ، تین تین چار چار
پیکٹوں ، بیڑی کے آٹھ دس بنڈلوں یا دیا سلائی کی نصف درجن ڈبیوں، پانی کی ڈھولی،
پینے کے تمباکو کی تین چار ٹکیوں اور موم بتی کے نصف بنڈل سے زیادہ نہ تھا۔
دوسری دکان میں ایک بنیا، تیسری میں حلوائی اور شیر فروش، چوتھی میں قصائی، پانچویں
میں کبابی اور چھٹی میں ایک کنجڑا آبسے۔ کنجڑا آس پاس کے دیہات سے سستے داموں چار
پانچ قسم کی سبزیاں لے آتا اور یہاں خاصے منافع پر بیچ دیتا۔ ایک آدھ ٹوکرا پھلوں
کا بھی رکھ لیتا چونکہ دکان خاصی کھلی تھی۔ ایک پھول والا اس کا ساجھی بن گیا۔ وہ
دن بھر پھولوں کے ہار، گجرے اور طرح طرح کے گہنے بناتا رہتا اور شام کو انہیں چنگیر
میں ڈال کر ایک ایک مکان پر لے جاتا اور نہ صرف پھول ہی بیچ آتا بلکہ ہر جگہ ایک
ایک دو دو گھڑی بیٹھ، سازندوں سے گپ شپ بھی ہانک لیتا اور حقے کے دم بھی لگا آتا۔
جس دن تماش بینوں کی کوئی ٹولی اس کی موجودگی میں ہی کوٹھے پر چڑھ آتی اورگانا
بجانا شروع ہوجاتا تو وہ سازندوں کے ناک بھوں چڑھانے کے باوجود گھنٹوں اٹھنے کا نام
نہ لیتا، مزے مزے سے گانے پر سر دھنتا اور بیوقوفوں کی طرح ایک ایک کی صورت تکتا
رہتا۔ جس دن رات زیادہ گزر جاتی اور کوئی ہار بچ جاتا تو اسے اپنے گلے میں ڈال لیتا
اور بستی کے باہر گلا پھاڑ پھاڑ کر گاتا پھرتا۔
ایک دن ایک بیسوا کا باپ اور بھائی جو درزیوں کا کام جانتے تھے۔ سینے کی ایک مشین
رکھ کر بیٹھ گئے۔ ہوتے ہوتے ایک حجام بھی آگیا اور اپنے ساتھ ایک رنگریز کو بھی
لیتا آیا۔ اس کی دکان کے باہر الگنی پر لٹکتے ہوئے طرح طرح کے رنگوں کے دوپٹے
ہوامیں لہراتے ہوئے آنکھوں کو بھلے معلوم ہونے لگے۔
چند ہی روز گزرے تھے کہ ایک ٹٹ پونجئے بساطی نے جس کی دکان شہر میں چلتی نہ تھی،
بلکہ اسے دکان کا کرایہ نکالنا بھی مشکل ہو جاتا تھا شہر کو خیر باد کہہ کر اس بستی
کا رخ کیا۔ یہاں پر اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کے طرح طرح کے لونڈر، قسم قسم
کے پاو ¿ڈر، صابن، کنگھیاں، بٹن، سوئی، دھاگا، لیس، فیتے، خوشبودار تیل، رومال،
منجن کی خوب بکری ہونے لگی۔
اس بستی کے رہنے والوں کی سرپرستی اور ان کے مربیانہ سلوک کی وجہ سے اسی طرح دوسرے
تیسرے روز کوئی نہ کوئی ٹٹ پونجیا دکاندار کوئی بزاز، کوئی پنساری، کوئی نیچہ بند،
کوئی نانبائی مندے کی وجہ سے یا شہر کے بڑھتے ہوئے کرایہ سے گھبرا کر اس بستی میں آ
پناہ لیتا۔
ایک بڑے میاں عطار، جو حکمت میں بھی کسی قدر دخل رکھتے تھے ان کا جی شہر کی گنجان
آبادی اور حکیموں اور دوا خانوں کی افراط سے جو گھبرایا تو وہ اپنے شاگردوں کو ساتھ
لے کر شہر سے اٹھ آئے اور اس بستی میں ایک دکان کرایہ پر لے لی۔ سارا دن بڑے میاں
اور ان کے شاگرد دواو ¿ں کے ڈبوں، شربت کی بوتلوں اور مربے، چٹنی، اچار کے بویاموں
کو الماریوں اور طاقوں میں اپنے اپنے ٹھکانے پر رکھتے رہے۔ ایک طاق میںطب اکبر،
قرابادین قادری اور دوسری طبی کتابیں جما کررکھ دیں۔ کواڑوں کی اندرونی جانب اور
دیواروں کے ساتھ جو جگہ خالی بچی وہاں انہوں نے اپنے خاص الخاص مجربات کے اشتہارات
سیاہ روشنائی سے جلی لکھ کر اور دفیتوں سے چپکاکر آویزاں کر دئیے۔ہر روز صبح کو
بیسواو ¿ں کے ملازم گلاس لے لے کر آموجود ہوتے اور شربت بزوری، شربت بنفشہ، شربت
انار اور ایسے ہی نزہت بخش ، روح افزا شربت و عرق، خمیرہ گاو ¿ زبان اور تقویت
پہنچانے والے مربے مع ورق ہائے نقرہ لے جاتے۔
جو دکانیں بچ رہیں، ان میں جن بیسواو ¿ں کے بھائی بندوں اور سازندوں نے اپنی
چارپائیاں ڈال دیں۔ دن بھر یہ لوگ ان دکانوں میں تاش چوسر اور شطرنج کھیلتے ، بدن
پر تیل ملواتے، سبزی گھوٹتے، بٹیروں کی پالیاں کراتے، تیتروں سے ”سبحان تیری قدرت“
کی رٹ لگواتے اور گھڑا بجا بجا کر گاتے۔
|