|
توبہ شکن
(بانو قدسیہ)
جھاڑو بغل میں داب، سر پر سلفچی دھر.... یہ جا وہ جا۔
بی بی کا خیال تھا کہ تھوڑی دیر میں آکر پاؤں پکڑے گی۔ معافی مانگے گی اور ساری
عمرکی غلامی کاعہد کرے گی ۔ بھلا ایسا گھر اسے کہاں ملے گا۔ پر وہ تو ایسی دفان
ہوئی کہ دوپہر کا کھانا پک کر تیار ہوگیا پر سنتو مہارانی نہ لوٹی۔
سارے گھر کی صفائیوں کے علاوہ غسلخانے بھی دھونے پڑے اور کمروں میں ٹاکی بھی پھیرنی
پڑی۔ ابھی کمر سیدھی کرنے کو لیٹی ہی تھی کہ ایک مہمان بی بی آگئیں۔ منے کی آنکھ سے
مشکل لگی تھی۔ مہمان بی بی حسن اتفاق سے ذرا اونچا بولتی تھیں۔ منا اٹھ بیٹھا اور
اٹھتے ہی کھانسنے لگا۔ کالی کھانسی کا بھی ہر علاج کر دیکھا تھا پر نہ تو
ہومیوپیتھی سے آرام آیا نہ ڈاکٹری علاج سے ۔ حکیموں کے کشتے اور معجون بھی رائیگاں
گئے۔ بس ایک علاج رہ گیا تھا اور یہ علاج سنتو جمعدارنی بتایا کرتی تھی ۔ بی بی !
کسی کالے گھوڑے والے سے پوچھو کہ منے کو کیا کھلائیں۔ جو کہے سو کھلا۔ دنوں میں
آرام آجائے گا۔
لیکن بات تو مہمان بی بی کی ہورہی تھی ۔ ان کے آنے سے سارے گھر والے اپنے اپنے
کمروں سے نکل آئے اور گرمیوں کی دوپہر میں خورشید کو ایک بوتل لینے کے لئے بھگا
دیا۔ ساتھ ہی اتنا سارا سودا اور بھی یاد آگیا کہ پورے پانچ روپے دینے پڑے۔
خورشید پورے تین سال سے اس گھر میں ملازم تھی۔ جب آئی تھی تو بغیر دوپٹے کے کھوکھے
تک چلی جاتی تھی اور اب وہ بالوں میں پلاسٹک کے کلپ لگانے لگی تھی۔ چوری چوری پیروں
کو کیوٹیکس اور منے کو پاؤڈر لگانے کے بعد اپنے چہرے پر بے بی پاؤڈر استعمال
کرنے لگی تھی۔ جب خورشید موٹی ململ کا دوپٹہ اوڑھ کر ہاتھ میں خالی سکوائش کی بوتل
لے کر سراج کے کھوکھے پر پہنچی تو سڑکیں بے آباد سی ہو رہی تھیں، نقدی والے ٹین کی
ٹرے میں دھرتی ہوئی خورشید بولی۔
”ایک بوتل مٹی کا تیل لا دو.... دو سات سو سات کے صابن.... تین پان سادہ....چار
میٹھے....ایک نلکی سفید دھاگے کی....دو لولی پاپ اور ایک بوتل ٹھنڈی ٹھار سیون اپ
کی....
روڑی کوٹنے والا انجن بھی جا چکا تھا اور کولتار کے دو تین خالی ڈرم تازہ کوٹی ہوئی
سڑک پر اوندھے پڑے تھے۔ سڑک پر سے حدت کی وجہ سے بھاپ سی اٹھتی نظر آتی تھی۔
دائی کی لڑکی خورشید کو دیکھ کر سراج کو اپنا گاؤں یاد آگیا۔ دھلے میں اسی وضع
قطع، اسی چال کی سیندوری سے رنگ کی نو بالغ لڑکی حکیم صاحب کی ہوا کرتی تھی۔ ٹانسے
کا برقعہ پہنتی تھی۔ انگریزی صابن سے منہ دھوتی تھی اور شاید خمیرہ گاؤزبان اور
کشتہ مرویدار بمعہ شربت صندل کے اتنی مقدارمیں پی چکی تھی کہ جہاں سے گزر جاتی سیب
کے مربے کی خوشبو آنے لگتی۔ گاؤں میں کسی کے گھر کوئی بیمار پڑ جاتا تو سراج اس
خیال سے اس کی بیمار پرسی کرنے ضرور جاتا کہ شاید وہ اسے حکیم صاحب کے پاس دوا لینے
کے لئے بھیج دے۔ جب کبھی ماں کے پیٹ میں درد اٹھتا تو سراج کو بہت خوشی ہوتی۔ حکیم
صاحب ہمیشہ اس نفخ کی مریضہ کے لئے دو پڑیاں دیا کرتے تھے۔ ایک خالی پڑیا گلاب کے
عرق کے ساتھ پینا ہوتی تھی اور دوسری سفید پڑیا سونف کے عرق کے ساتھ۔ حکیم صاحب کی
بیٹی عموماً اسے اپنے خط پوسٹ کرنے کو دیاکرتی۔ وہ ان خطوں کو لال ڈبے میں ڈالنے سے
پہلے کتنی دیر سونگھتا رہتا تھا۔ ان لفافوں سے بھی سیب کے مربے کی خوشبو آیا کرتی
تھی۔
اس وقت دائی کرمو کی بیٹی گرم دوپہر میں اس کے سامنے کھڑی تھی اور سارے میں سیب
کامربہ پھیلا ہوا تھا۔
پانچ روپے کا نوٹ نقدی والے ٹرے میں سے اٹھاکر سراج نے چپچی نظروں سے خورشید کی طرف
دیکھا اور کھنکھار کر بولا.... ”ایک ہی سانس میں اتنا کچھ کہہ گئی۔ آہستہ آہستہ کہو
نا۔ کیا کیا خریدنا ہے؟“
ایک بوتل مٹی کا تیل....دو سات سو سات صابن.... تین پان سادہ، چار میٹھے۔ ایک نلکی
بٹر فلائی والی سفید رنگ کی....۔
|