|
توبہ شکن
(بانو قدسیہ)
ایک بوتل سیون اپ کی.... جلدی کر، گھر میں مہمان
آئے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے تو سراج نے کھٹاک سے سبز بوتل کا ڈھکنا کھولا اور بوتل کو خورشید کی
جانب بڑھا کربولا۔
” یہ تو ہوگئی بول اور....“
”بوتل کیوں کھولی تو نے....اب بی بی جی ناراض ہو ں گی۔“
”میں سمجھا کہ کھول کر دینی ہے....“
”میں نے کوئی کہا تھا تجھے کھولنے کے لئے “
”اچھااچھا بابا۔ میری غلطی تھی۔یہ بوتل تو پی لے۔ میں ڈھکنے والی اور دے دیتا
ہوںتجھے....“
جس وقت خورشید بوتل پی رہی تھی، اس وقت بی بی کا چھوٹا بھائی اظہر ادھر سے گزرا۔
اسے سٹرا سے بوتل پیتے دیکھ کر وہ مین بازار جانے کی بجائے الٹا چودھری کالونی کی
طرف لوٹ گیا اور این ٹائپ کے کوارٹر میں پہنچ کر برآمدے ہی سے بولا۔
”بی بی ! آپ یہاں بوتل کا انتظار کررہی ہیں اور وہ لاڈلی وہاں کھوکھے پر خود بوتل
پی رہی ہے سٹرا لگا کر۔“
بھائی تو اخبار والے کی فرائض سر انجام دے کر سائیکل پر چلا گیا لیکن جب دو روپے
تیرہ آنے کی ریزگاری مٹھی میں دبائے، دوسرے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتل اور بکل
میں سات سو سات صابن کے ساتھ سیون اپ کی بوتل لیے خورشید آئی تو سنتو جمعدارنی کے
حصے کا غصہ بھی خورشید پر ہی اترا۔
”اتنی دیر لگ جاتی ہے تجھے کھوکھے پر۔“
”بڑی بھیڑ تھی جی....“
”سراج کے کھوکھے پر....اس وقت؟“
”بہت لوگوں کے مہمان آئے ہوئے ہیں جی ....سمن آباد میں ویسے ہی مہمان بہت آتے
ہیں.... سب نوکر بوتلیں لے جا رہے تھے ۔“
”جھوٹ نہ بول کمبخت! میں سب جانتی ہوں۔“
خورشید کا رنگ فق ہو گیا۔
”کیا جانتی ہیں جی آپ....“
”ابھی کھوکھے پرکھڑی تو.... بوتل نہیں پی رہی تھی۔“
خورشید کی جان میں جان آئی۔ پھر وہ بپھر کر بولی۔
”وہ میرے پیسوں کی تھی جی....آپ حساب کردیں جی میرا.... مجھ سے ایسی نوکری نہیں
ہوتی....“
بی بی تو حیران رہ گئی۔
سنتو کا جانا گویا خورشید کے جانے کی تمہید تھی۔ لمحوں میں بات یوں بڑھی کہ مہمان
بی بی سمیت سب برآمدے میں جمع ہو گئے اور کترن بھر لڑکی نے وہ زبان دراز کی کہ جن
مہمان بی بی پر بوتل پلا کر رعب گانٹھنا تھا وہ الٹا اس گھر کو دیکھ کر قائل ہو
گئیں کہ بد نظمی، بے ترتیبی اور بد تمیزی میں یہ گھر حرف آخر ہے۔
آناً فاناً مکان نوکرانی کے بغیر سونا سونا ہو گیا۔
ادھر جمعدارنی اور خورشید کا رنج تو تھا ہی، اوپر سے پپو کی کھانسی دم نہ لینے دیتی
تھی۔ ۔
|