|
توبہ شکن
(بانو قدسیہ)
جب تک خورشید کا دم تھا کم از کم اسے اٹھانے پچکارنے والا تو کوئی موجود تھا۔
اب کفگیر تو چھوڑ چھاڑ کے بچے کو اٹھانا پڑتا۔ اسے بھی کالی کھانسی کا دورہ پڑتا تو
رنگت بینگن کی سی ہو جاتی۔ آنکھیں سرخا سرخ نکل آتیں اور سانس یوں چلتا جیسے کٹی
ہوئی پانی کی ٹیوب سے پانی رس رس کے نکلتا ہے۔
سارا دن وہ یہی سوچتی رہی کہ آخر اس نے کونسا گناہ کیا ہے جس کی پاداش میں اس کی
زندگی اتنی کٹھن ہے۔ اس کے ساتھ کالج میںپڑھنے والیاں تو ایسی تھیں گویا ریشم پر
چلنے سے پاؤں میں چھالے پڑجائیں اوریہاں وہ کپڑے دھونے والے تھاپے کی طرح کرخت
ہوچکی تھی۔ رات کو پلنگ پر لیٹتی تو جسم سے انگارے جھڑنے لگتے۔ بدبخت خورشید کے دل
میں ترس آجاتا تو دوچار منٹ دکھتی کمر میں مکیاں مار دیتی ورنہ اوئی آئی کرتے نیند
آجاتی اور صبح پھر وہی سفید پوش غریبوں کی سی زندگی اور تندور میں لگئی ہوئی روٹیوں
کا سی سینک!
اس روز دن میں کئی مرتبہ بی بی نے دل میں کہا۔
”ہم سے اچھا گھرانہ نہیں ملے گا تو دیکھیں گے۔ ابھی کل برآمدے میں آئی بیٹھی ہوں
گی۔ دونوں کالے منہ والیاں“ پر اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس سے اچھا گھر ملے نہ
ملے وہ دونوں اب ٹوک کر نہ رہیں گی۔
سارے گھرمیں نظر دوڑاتی تو چھت کے جالوں سے کر رکی ہوئی نالی تک اور ٹوٹی ہوئی
سیڑھیوں سے لے کر اندر ٹپ ٹپ برسنے والے نلکے تک عجیب کسمپرسی کا عالم تھا، ہر جگہ
ایک آنچ کی کسر تھی۔ تین کمروں کا مکان جس کے دروازوں کے آگے ڈھیلی ڈوروں میں دھاری
دار پردے پڑے تھے، عجیب سی زندگی کاسراغ دیتا تھا۔ نہ تو یہ دولت تھی اور نہ ہی یہ
غریبی تھی۔ ردی کے اخبار کی طرح اس کا تشخص ختم ہو چکا تھا۔
جب تک ابا جی زندہ تھے اور بات تھی۔ کبھی کبھار مائیکہ جا کر کھلی ہوا کا احساس
پیداہوجاتا۔ اب تو ابا جی کی وفات کے بعد امی، اظہر اور منی بھی اس کے پاس آگئے
تھے۔ امی زیادہ وقت پچھلی پوزیشن یاد کرکے رونے میں بسر کرتیں۔ جب رونے سے فراغت
ہوتی تو وہ اڑوس پڑوس میں یہ بتانے کے لئے نکل جاتیں کہ وہ ایک ڈپٹی کمشنر کی بیگم
تھیں اور حالات نے انہیں یہاں سمن آباد میں رہنے پرمجبور کردیاہے۔
منی کو مٹی کھانے کا عارضہ تھا۔ دیواریں کھرچ کھرچ کر کھوکھلی کردی تھیں۔ نا مراد
سیمنٹ کا پکا فرش اپنی نر م نرم انگلیوں سے کرید کر دھر دیتی۔ بہت مرچیں کھلائیں۔
کونین ملی مٹی سے ضیافت کی۔ ہونٹوں پر دہکتا ہوا کوئلہ رکھنے کی دھمکی دی پر وہ شیر
کی بچی مٹی کو دیکھ کر بری طرح ریشہ خطمی ہوتی۔
اظہر جس کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا جب اس کالج کے پرنسپل نے تھرڈ ڈویژن کے باعث
انکار کردیا تو دن رات ماں بیٹا مرحوم ڈی سی صاحب کو یاد کرکے روتے رہے۔ ان کے ایک
فون سے وہ بات بن جاتی جو پروفیسر فخر کے کئی پھیروں سے نہ بنی۔
امی تو دبی زبان میں کئی بار یہاں تک کہہ چکی تھیں کہ ایسا داماد کس کام کا جس کی
سفارش ہی شہر میں نہ چلے۔ نتیجے کے طور پر اظہر نے پڑھائی کا سلسلہ منقطع کرلیا۔
پروفیسر صاحب نے بہت سمجھایا پر اس کے پاس تو باپ کی نشانی ایک موٹر سائیکل تھا ۔
چند ایک دوست تھے جو سول لائنز میں رہتے تھے وہ بھلا کیا کالج والج جاتا۔
اس سارے ماحول میں پروفیسر فخر کیچڑ کا کنو ل تھے ۔
لمبے قد کے دبلے پتلے پروفیسر .... سیاہ آنکھیں جن میں تجسس اور شفقت کا ملا جلا
رنگ تھا۔ انہیں دیکھ کر خداجانے کیوں ریگستان کے گلہ بان یاد آجاتے۔ وہ ان لوگوں کی
طرح تھے جن کے آدرش وقت کے ساتھ دھندلے نہیں پڑ جاتے.... جو اس لئے محکمہ تعلیم میں
نہیں جاتے کہ ان سے سی ایس پی کا امتحان پاس نہیں ہو سکتا۔ وہ دولت کمانے کے کوئی
بہتر گر نہیں جانتے۔ انہوں نے تو تعلیم و تدریس کا پیشہ اس لئے چنا تھا وہ انہیں
نوجوانوں کی پر تجسس آنکھیں پسند تھیں۔ انہیں فسٹ ائیر کے وہ لڑکے بہت اچھے لگتے
تھے جو گاؤں سے آتے تھے اور آہستہ آہستہ شہر کے رنگ میں رنگے جاتے تھے۔ ان کے
چہروں سے جو ذہانت ٹپکتی تھی، دھرتی کے قریب رہنے کی وجہ سے ان میں جو دو اور دو
چار قسم کی عقل تھی۔
|