|
توبہ شکن
(بانو قدسیہ)
پروفیسر فخر انہیں صیقل کرنے میں بڑا لطف حاصل کرتے تھے ۔
وہ تعلیم کا میلاد النبیﷺ کا فنکشن سمجھتے۔ جب گھر گھر دیے جلتے ہیں اور روشنی سے
خوشی کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ ان کے ساتھی پروفیسر جب سٹاف روم میں بیٹھ کر خالص
Have-Notsکے انداز میں نو دولتی سوسائٹی پر تبصرہ کرتے تو وہ خاموش رہتے کیونکہ ان
کا مسلک لوئی پاسچر کا مسلک تھا۔ کولمبس کا مسلک تھا۔ ان کے دوست جب فسٹ کلاس،
سیکنڈ کلاس اور سلیکشن گریڈ کی باتیں کرتے تو پروفیسر فخر منہ بند کیے اپنے ہاتھوں
پر نگاہیں جما لیتے۔ وہ تو اس زمانے کی نشانیوں میں سے رہ گئے تھے جب شاگرد اپنے
استاد کے برابر بیٹھ نہ سکتا تھا۔ جب استاد کے آشیر باد کے بغیر شانتی کا تصور بھی
گناہ تھا۔ جب استادخود کبھی حصول دولت کے لئے نہیں نکلتا تھا لیکن تاجدار اس کے
سامنے دو زانو آکر بیٹھا کرتے تھے ۔ جب وہ شاہ جہانگیر کے دربار میں میاں میر صاحب
کی طرح کہتا کہ
”اے شاہ! آج تو بلا لیا ہے پر اب شرط عنایت یہی ہے کہ پھر کبھی نہ بلانا۔“
جب استاد کہتا۔
”اے حاکم وقت! سورج کی روشنی چھوڑ کر کھڑا ہو جا۔“
جب بی بی نے پہلی بار پروفیسر فخر کو دیکھا تھا تو فخر کی نظروں کا مجذوبانہ حسن
شہد کی مکھیوں جیسا جذبہ خدمت اور صوفیائے کرام جیسا انداز گفتگو اسے لے ڈوبا۔ بی
بی ان لڑکیوں میں سے تھی جو درخت سے مشابہ ہوتی ہیں۔ درخت چاہے کیسا ہی آسمان چھونے
لگے، بالآخر مٹی کے خزانوں کو نچوڑتا ہی رہتا ہے۔ وہ چاہے کتنے ہی چھتنا رہ کیوں نہ
ہو، بالآخر اس کی جڑوں میں نیچے اترتے رہنے کی ہوس باقی رہتی ہے.... اور پھر
پروفیسر کا آدرش کوئی مانگے کا کپڑا تو تھا نہیں کہ مستعار لیا جاتا لیکن بی بی تو
ہوا میں جھولنے والی ڈالیوں کی طرح یہی سوچتی رہی کہ اس کا دھرتی کے ساتھ کوئی تعلق
نہیں۔ وہ ہوا میں زندہ رہ سکتی ہے۔ محبت ان کے لئے کافی ہے۔
تب ابا جی زندہ تھے اور ان کے پاس شیشوں والی کار تھی جس روز وہ بی اے کی ڈگری لے
کر یونیورسٹی سے نکلی تو اس کے ابا جی ساتھ تھے۔ ان کی کار رش کی وجہ سے عجائب گھر
کی طرف کھڑی تھی۔ مال کو کراس کر کے جب وہ دوسری جانب پہنچے تو فٹ پاتھ پر اس نے
پروفیسر کو دیکھا۔ وہ جھکے ہوئے اپنی سائیکل کا پیڈل ٹھیک کررہے تھے۔
”سر سلام علیکم....!“
فخر نے سر اٹھایا اور ذہین آنکھوں میں مسکراہٹ آگئی۔
”وعلیکم السلام۔ مبارک ہو آپ کو....“
سیاہ گاؤن میں وہ اپنے آپ کو بہت معزز محسوس کر رہی تھی۔
”سر میں لے چلوں آپ کو....“
بڑی سادگی سے فخر نے سوال کیا.... ”آپ سائیکل چلانا جانت ہیں؟“
”سائیکل پر نہیں جی....میرا....مطلب ہے کار کھڑی ہے۔ جی میری۔“
فخر سیدھا کھڑا ہو گیا اور بی بی اس کے کندھے کے برابر نظر آنے لگی۔
دیکھیے مس....استادوں کے لئے کاروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے شاگرد کاروں میں بیٹھ
کر دنیا کا نظام چلاتے ہیں۔ استادوں کو دیکھ کر کار روکتے ہیں لیکن استاد شاگردوں
کی کار میں کبھی نہیں بیٹھتا کیونکہ شاگرد سے اس کا رشتہ دنیاوی نہیں ہوتا۔ استاد
کا آسائش سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ مرگ چھالا پر سوتا ہے۔ بڑکے درخت تلے بیٹھتا
اور جو کی روٹی کھاتا ہے۔
|