|
توبہ شکن
(بانو قدسیہ)
جو نہ امیر تھا اور نہ ہی غریب.... دونوں کے درمیان کہیں مرغ بسمل
کی طرح لٹک رہا تھا۔
جب بات پڑھانے تک جا پہنچی تو پروفیسر فخر بولے۔
”جی ہاں۔ میں انہیں پڑھا دوں گا۔ بخوشی“
اب پہلو بد ل کر ریٹائرڈ ڈی سی صاحب نے کہا....معاف کیجئے پروفیسر صابح! لیکن بات
پہلے ہی واضح ہو جانی چاہیے.... یعنی آپ.... میرا مطلب ہے آپ کی Renumerationکیا
ہوگی؟“
ٹیوشن کی فیس کو خوبصورت سے انگریزی لفظ میں ڈھال کر گویا ڈی سی صاحب نے اس میں سے
ذلت کی پھانس نکال دی۔
لیکن پروفیسر صاحب کا رنگ متغیر ہو گیا اور وہ مونڈھے کی پشت کو دیوار سے لگا کر
بولے۔
”میں....مجھے.... دراصل مجھے گورنمنٹ پڑھانے کا عوضانہ دیتی ہے سر۔ اس کے علاوہ....
میں ٹیوشن نہیں کرتا....تعلیم دیتاہوں۔ جو چاہے جب چاہے مجھ سے پڑھ سکتا ہے۔“
”دیکھیے جناب.... میں اس لیے پڑھاتا ہوں کہ مجھے پڑھانے کا شوق ہے۔ اگر میں تحصیدار
ہوتا تو بھی پڑھاتا۔ اگر ضلع کا ڈی سی ہوتا تو بھی پڑھاتا۔ کچھ لوگ پیدائشی میری
طرح ہوتے ہیں۔ ان کے ماتھے پر مہرتی ہے پڑھنے کی.... ان کے ہاتھوں پر لکیر ہ ہوتی
ہے پڑھانے کی۔“
بی بی کے حلق میں نمکین آنسو آگئے۔
دو غیرتوں کا مقابلہ تھا۔ ایک طرف ڈی سی صاحب کی وہ غیر ت تھی جسے ہر ضلع کے افسرو
ں نے کلف لگائی تھی۔ دوسری جانب ایک Idealisticآدمی کی غیرت تھی جو گھونگے کی طرح
اپنا سارا گھر اپنے ہی جسم پر لاد کر چلا کرتا ہے اور ذرا سی آہٹ پا کر اس گھونگے
میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے۔
پروفیسر صاحب بڑی بھلی سی باتیں کیے جارہے تھے اور اس کے ابا جی مونڈھے میں یو ں
بیٹھے تھے جیسے بھاگ جانے کی تدبیریں سوچ رہے ہوں۔
”فائن آرٹس کا دولت کی ذخیرہ اندوزی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں میرا
پروفیشن فائن آرٹس کا ایک شعبہ ہے۔ انسان میں کلچر کا شعور پیدا کرنے کی سعی....
انسان میں تحصیل علم کی خواہش بیدار کرنا.... عام سطح سے اٹھ کر سوچنا اور سوتے
رہنا.... ایک صحیح استاد ان نعمتوں کو بیدار کرتا ہے۔ ایک تصویر، ایک گیت، ایک
خوبصورت بت بھی یہی کچھ کرپاتے ہیں۔ ساز بجانے والے کو اگر آپ لاکھ روپیہ دیں اور
اس پر پابندی لگائیں کہ وہ ساز کو ہاتھ نہ لگائے تو وہ غالباً وہ.... اگر وہ
Genuineہے تو آپ کی پیشکش ٹھکرا دے گا.... میں ٹیچر ہوں۔ Genuineٹیچر.... میں
Fakeنہیں ہوں....زبیری صاحب....!“
ڈی سی صاحب اپنی بیٹی کے سامنے ہار ماننے والے نہیں تھے۔
”اور جو پیٹ میں کچھ نہ ہو تو غالباً سازندہ مان جائے گا۔“
”پھر وہ سازندہ Fakeہوگا۔ Passionکا اس کی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو گا بلکہ غالباً
وہ اپنے آرٹ کو ایک تمغہ، ایک پاسپورٹ، ایک اشتہار کی طرح استعمال کرتا ہوگا۔“
”اچھا جی آپ پیسے نہ لیں لیکن بی بی کو پڑھا تو دیا کریں۔“
”جی ہاں۔ میں بخوشی پڑھا دوں گا۔“
”تو کب آیا کریں گے آپ؟.... میں کار بھجوا دیا کروں گا۔
|