|
توبہ شکن
(بانو قدسیہ)
ڈائننگ ہال میں وی آئی پیز کے ساتھ پرتکلف گفتگو کرتے ہوئے،
ان کا وجود کٹ گلاس کے فانوس کی طرح خوبصورت اور چمکدار تھا۔
جس روز اس بڑے ہوٹل کے بڑے مینجر نے بی بی کے خاندان کو کھانے کی دعوت دی اسی روز
ڈرائی کلینر سے واپسی پر بی بی کی مڈبھیڑ پروفیسر فخر کے ساتھ ہوگئی۔ ووہ فٹ پاتھ
پر پرانی کتابوں والی دوکانوں کے سامنے کھڑے تھے اور ایک پرانا سا مسودہ دیکھ رہے
تھے۔
ان سے پانچ قدم چھ قدم دور ”ہر مال ملے آٹھ آنے“ والا چیخ چیخ کر سب کو بلا رہا
تھا۔ ذرا سا ہٹ کر وہ دکان تھی جس میں سرخ چونچوں والے ، ہریل طوطے، سرخ افریقہ کی
چڑیاں اور خوبصورت لقے کبوتر غٹر غوں غٹر غوں کر رہے تھے۔ پروفیسر صاحب پر سارے
بازار کا کوئی اثر نہ ہورہا تھا اور وہ بڑے۔ انہماک سے پڑھنے میں مشغول تھے۔
کار پار ک کرنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ بالآخر محکمہ تعلیم کے دفتر میں جا کر پارک
کروائی اور پیدل چلتی ہوئی پروفیسر فخر تک جا پہنچی۔
پرانی کتابیں بیچنے والے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ کرم خوردہ کتابوں کے ڈھیر تھے۔
ایسی کتابیں اور رسالے بھی تھے جنہیں امریکن وطن لوٹنے سے پہلے سیروں کے حساب سے
بیچ گئے تھے اور جن کے صفحے بھی ابھی نہ کھلے تھے۔
”سلام علیکم سر....!“
چونک کر سر نے پیچھے دیکھا تو بی بی شرمندہ ہوگئی.... اللہ ! اس پروفیسر کی آنکھ
میں کبھی تو پہچان کی کرن جاگے گی؟ ہر بار نئے سرے سے اپنا تعارف تو نہ کروانا پڑے
گا۔
”آپ اتنی دھوپ میں کھڑے ہیںسر....“
پروفیسر نے جیب سے ایک بوسیدہ اور گندہ رومال نکال کر ماتھا صاف کیا اور آہستہ سے
بولے ” ان کتابوں کے پاس آکر گرمی کا احساس باقی نہیں رہتا۔“
بی بی کو عجیب شرمندگی سی محسوس ہوئی کیونکہ جب کبھی وہ پڑھنے بیٹھتی تو ہمیشہ گردن
پر پیسنے کی نمی سی آجاتی اور اسے پڑھنے سے الجھن ہونے لگتی۔
”آپ کو کہیں جانا ہو تو ....جی میں چھوڑ آؤں آپ کو۔“
”نہیں میرا سائیکل ہے ساتھ.... شکریہ!“
بات کچھ بھی نہ تھی۔ فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کی دکان کے سامنے ایک بے نیاز چھوڑے
پروفیسر کے ساتھ جس کے کالر پر میل کا نشان تھا، ایک سرسری ملاقات تھی چند ثانیے
بھر کی۔
لیکن اس ملاقات کا بی بی پر تو عجیب اثر ہوا۔ سارا وجود تحلیل ہو کر ہوا میں مل
گیا۔ کندھوں پر سر نہ رہا.... اور پاؤں میں ہلنے کی سکت نہ رہی تھی۔ حالانکہ
پروفیسر فخر نے اس سے ایک بات بھی ایسی نہ کی جو بظاہر توجہ طلب ہوتی۔ پر بی بی کے
تو ماتھے پر جیسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے چندن کا ٹیکہ لگا دیا ۔ کھوئی کھوئی سی گھر
آئی اور غائب سی بڑے ہوٹل پہنچ گئی۔
جب وہ شمعوز کی ساڑھی پہنے آئینہ خانے سے لابی میں پہنچی تو دراصل وہ آکسیجن کی طرح
ایک ایسی چیز بن چکی تھی جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جمالی ملک صاحب شارک سکن کے
سوٹ میں ملبوس، کالر میں کارنیشن کا پھول لگائے گھٹنوں پر کلف شدہ سرویٹ سرکھے اتنے
ٹھوس نظر آرہے تھے کہ سامنے میز پر کہنیاں ٹکائے جھینگے کا پلاؤ اور چوپ سوٹی
کھانے والی لڑکی پر انہیں شبہ تک نہ ہو سکا اور وہ جان ہی نہ سکے کہ مسلسل باتیں
کرنے والی لڑکی دراصل ہوٹل میں موجود ہی نہیں ہے۔
اگر بی بی کی شادی جمالی ملک سے ہو جاتی تو کہانی آئسنگ لگے کیک کی طرح دلآویز
ہوتی۔ لفٹ کی طرح اوپر کی منزلوں کو چڑھنے والی۔
|