|
توبہ شکن
(بانو قدسیہ)
سوئمنگ پول کے اس تختے کی طرح جس
پر چڑ ھ کر ہر تیرنے والا سمرسولٹ کرنے سے پہلے کئی فٹ اوپر چلا جایا کرتا ہے۔
لیکن....
شادی تو بی بی کی پروفیسر فخر سے ہوگئی۔
ڈی سی صاحب کی بیٹی کا بیاہ اس کی پسند کا ہوا اور اس شادی کی دعوت ہوٹل میں دی گئی
جس کے مینجر جمالی صاحب تھے۔ دلہن کے گھر والوں نے چار ڈی لکس قسم کے کمرے دو دن
پہلے سے بک کر رکھے تھے اور بڑے ہال میں جہاں رات کا آکسٹرا بجا کرتا ہے، وہیں
دولہا دلہن کے اعزاز میں بہت بڑی دعوت رہی۔ نکاح بھی ہوٹل میں ہی ہوا اور رخصتی بھی
ہوٹل ہی سے ہوئی۔ ساری شادی کاہنگامہ مفقود تھا۔ ایک ٹھنڈ کا، ایک خاموشی کا احساس
مہمانوں پر طاری تھا۔ ٹھنڈے ٹھنڈے ہال میں یخ بستہ کولڈ ڈرنکز پیتے ہوئے سرد مہر سے
مہمانوں سے مل کر بی بی اپنے میاں کے ساتھ سمن آباد چلی گئی۔
لیکن اس رخصتی سے پہلے ایک اور بھی چھوٹا سا واقعہ ہوا۔
نکاح سے پہلے جب دلہن تیار کی جارہی تھی اور اسے زیور پہنایا جارہا تھا، اس وقت
بجلی اچانک فیوز ہو گئی۔ پہلے بتیاں گئیں پھر ائیر کنڈیشنر کی آواز بند ہو گئی ۔
چند ثانئے تو کانوں کو سکون سامحسوس ہوا لیکن پھر لڑکیوں کا گروہ کچھ تو گرمی کے
مارے اور کچھ موم بتیوں کی تلاش میں باہر چلا گیا۔
اندھیرے کمرے میں ایک آراستہ دلہن رہ گئی۔ ارد گرد خوشبو کا احساس باقی رہا اور
باقی سب کچھ غائب ہوگیا۔
بتیاں پورے آدھے گھنٹے بعد آئیں۔
اب خدا جانے یہ جمالی ملک کی سکیم تھی یا واپڈا والوں کی سازش تھی۔ بجلی چلے جانے
کے کوئی دس منٹ بعد بی بی کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ڈری ہوئی آواز میںبی بی نے جواب
دیا۔
”کم ان....“
ہاتھ میں شمعدان لیے جمالی ملک داخل ہوا۔
اس نے آدھی رات جیسا گہرا نیلا سوٹ پہن رکھا تھا۔ کالر میں کارنیشن کا پھول تھا اور
اس کے آتے ہی تمباکو ملی کوئی تیز سی خوشبو کمرے میں پھیل گئی۔
بی بی کا دل زور زور سے بجنے لگا۔
”میں یہ بتانے آیا تھا کہ ہمارا جنریٹر خراب ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر میں بجلی آجائے
گی.... کسی چیز کی ضرورت تو نہیں آپ کو ؟
وہ خاموش رہی۔
”میں یہ کینڈل سٹینڈ آپ کے پاس رکھ دوں؟“
اثبات میں بی بی نے سر ہلا دیا۔
جمالی ملک نے شمعدان ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا۔
جب پانچ موم بتیوں کا عکس بی بی کے چہرے پر پڑا اور کنکھیوں سے اس نے آئینے کی طرح
دیکھا تو لمحہ بھر کو تو اپنی صورت دیکھ کر وہ خود حیران سی رہ گئی۔
”آپ کی سہیلیاں کدھر گئیں؟“۔
|