|
توبہ شکن
(بانو قدسیہ)
”وہ نیچے چلی گئی ہیں شاید....“
”اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہوتو ....تو میں یہاں بیٹھ جاؤں چند منٹ۔“
بی بی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
وہ اپالو کی طرح وجیہہ تھا۔ جب اس نے ایک گھٹنے پر دوسرا گھٹنا رکھ کر سر کو صوفے
کی پشت سے لگایا تو بی بی کو عجیب قسم کی کشش محسوس ہوئی۔ جمالی ملک کے ہاتھ میں
سارے ہوٹل کی ماسٹر چابیاں تھیں اور اس کی بڑی سی انگوٹی نیم روشنی میں چمک رہی
تھی۔
اس خاموش خوبصورت آدمی کو بی بی نے اپنے نکاح سے آدھ گھنٹہ پہلے پہلی بار دیکھا اور
اس کی ایک نظر نے اسے اپنے اندر اس طرح جذب کرلیا جسے سیاہی چوس سیاہی کو جذب کرتا
ہے۔
”میں آپ کو مبارکباد پیش کر سکتاہوں؟....“ اس نے مضطرب نظروں سے بی بی کو دیکھ کر
پوچھا۔
وہ بالکل چپ رہی۔
”لڑکیاں....خاص کر آپ جیسی لڑکیوں کو ایک بڑا زعم ہوتاہے اور اسی ایک زعم کے ہاتھوں
وہ ایک بہت بڑی غلطی کربیٹھتی ہیں۔“
نقلی پلکوں والے بوجھل پپوٹے اٹھا کر بی بی نے پوچھا....”کیسی غلطی؟“
”کچھ لڑکیاں محض رشی سادھوؤں کی تپسیا توڑنے کو خوشی کی معراج سمجھتی ہیں....“
وہ سمجھتی ہیں کہ کسی بے نیازی کی ڈھال میں سوراخ کر کے وہ سکون معراج کو پالیںگی۔
کسی کے تقویٰ کو برباد کرنا خوشی کے مترادف نہیں ہے۔ کسی کے زہد کو عجز و انکساری
میں بد ل دینا کچھ اپنی راحت کا باعث نہیں.... ہاں دوسروں کے لئے احساس شکست کا
باعث ہوسکتی ہے یہ بات....
چابیاں ہاتھ میں گھوم پھر رہی تھیں۔ ذہانت اور فصاحت کا دریا رواں تھا۔
”یہ زعم.... عورتوں میں، لڑکیوں میں کب ختم ہوگا؟.... میرا خیال تھا آپ ذہین ہیں
لیکن آپ بھی وہی غلطی کربیٹھی ہیں جو عام لڑکی کرتی ہے۔ آپ بھی توبہ شکن بننا چاہتی
ہیں۔“
”مجھے....مجھے پروفیسر فخر سے محبت ہے۔“
”محبت....؟ آپ پروفیسر فخر کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ اندر سے وہ بھی گوشت پوست کے
بنے ہوئے ہیں۔ اپنے تمام آئیڈیلز کے باوجود وہ بھی کھانا کھاتے ہیں۔ سوتے ہیں....
اور محبت کرتے ہیں.... ان کا کورٹ آف آرمر اتنا سخت نہیں جس قدر وہ سمجھتے ہیں۔“
وہ چاہتی تھی کہ جمالی ملک سے کہے کہ تم کون ہوتے ہو مجھے پروفیسر فخر کے متعلق کچھ
کہنے والے! تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ یہاں لیدر کے صوفے سے پشت لگا کر سارے ہوٹل
کا ماسٹر چابیاں ہاتھ میں لے کر اتنے بڑے آدمی پر تبصرہ کرو....لیکن وہ بے بس سنے
جارہی تھی اور کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔
میں پروفیسر صاحب سے واقف نہیں ہوں لیکن جو کچھ سنا ہے اس سے یہی اندازہ لگایا ہے
کہ ....وہ اگر مجرد رہتے تو بہتر ہوتا.... عورت تو خواہ مخواہ توقعات سے وابستہ
کرلینے والی شے ہے.... وہ بھلا اس صنف کو کیا سمجھ پائیں گے؟“
”جمالی صاحب!.... اس نے التجا کی۔
”آپ سی لڑکیاں اپنے رفیق حیات کو اس طرح چنتی ہیں جس طرح مینو میں سے کوئی اجنبی
نام کی ڈش آرڈر کردی جائے محض تجربے کی خاطر.... محض تجسس کے لئے
....۔
|