|
توبہ شکن
(بانو قدسیہ)
وہ پھر بھی چپ رہی۔
”اتنے سارے حسن کا پروفیسر صاحب کو کیا فائدہ ہو گا بھلا.... منی پلاٹ پانی کے بغیر
سوکھ جاتا ہے ۔ عورت کا حسن پرستش اور ستائش کے بغیر مر جھا جا تاہے ....کسی ذہین
مرد کو بھلا کسی خوبصورت عورت کی کب ضرورت ہوتی ہے؟ اس کے لئے تو کتابوں کا حسن بہت
کافی ہے۔“
شمعدان اپنی پانچ موم بتیوں سمیت دم سادھے جل رہا تھا اور وہ کیوٹیکس لگے ہاتھوں کو
بغور دیکھ رہی تھی۔
”مجھ سے بہتر قصیدہ گو آپ کو کبھی نہیں مل سکتا قمر.... مجھ سا گھر آپ کو نہیں مل
سکتا کیونکہ میرا گھر اس ہوٹل میں ہے اور ہوٹل سروس سے بہتر کوئی سروس نہیں ہوتی
اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میری باتوں پر آپ کو اس وقت یقین آئے گا جب آپ کے چہرے
پر چھائیاں پڑ جائیں گی۔ ہاتھ کیکر کی چھال جیسے ہو جائیں گے اور پیٹ چھاگل میں بدل
جائے گا.... میں تو چاہتا تھا....میری تو تمنا تھی کہ جب ہم اس ہوٹل کی لابی میں
اکٹھے پہنچتے.... جب اس کی بار میں ہم دونوں کا گزر ہوتا۔ جب اس کی گیلریوں میں ہم
چلتے نظر آتے تو امریکن ٹورسٹ سے لے کر پاکستانی پیٹی بوژوا تک سب، ہماری خوش نصیبی
پر رشک کرتے لیکن آپ آئیڈیلسٹ بننے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ حسن کے لئے گڑھا ہے بربادی
کا۔“
ساون کی رات جیسا گہر ا نیلا سوٹ، کارنیشن کا سرخ پھول اور آفٹر شیولوشن سے بسا ہوا
چہرہ بالآخر دروازے کی طرف بڑھا اور بڑھے ہوئے بولا۔
”کسی سے آئیڈیلز مستعار لے کر زندگی بسر نہیں ہو سکتی محترمہ.... آورش جب تک اپنے
ذاتی نہ ہوں ہمیشہ منتشر ہو جاتے ہیں۔ پہاڑوں کا پودا ریگستان میں نہیں لگا کرتا۔“
اس میں تو اتنا حوصلہ بھی نہ رہا تھا کہ آخری نظر جمالی ملک پر ہی ڈال لیتی۔ دروازے
کے مدور ہینڈل پر ہاتھ ڈال کر جمالی ملک نے تھوڑا سا پٹ کھول دیا۔ گیلری سے لڑکیوں
کے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔
”میں بھی کس قدر احمق ہوں۔ اس سے اپنا کیس pleadکر رہا ہوں جو کبھی کا فیصلہ کر چکی
ہے.... اچھا جی مبارک ہو آپ کو....“
دروازہ کھلا اور پھر بند ہو گیا۔
جاتے ہوئے وجیہہ مینجر کو ایک نظر بی بی نے دیکھا اور اپنے آپ پر لعنت بھیجتی ہوئی
اس نے نظریں جھکا لیں۔
چند لمحوں بعد دروازہ پھر کھلا اور ادھ کھلے پٹ سے جمالی ملک نے چہرہ اندر کر کے
دیکھا۔ اس کی ہلکی براؤن آنکھوں میں نمی اور شراب کی ملی جلی چمک تھی جیسے گلابی
شیشے پر آہوں کی بھاپ اکٹھی ہو گئی ہو۔
”مجھ سے بہتر آدمی تو آپ کو مل رہا ہے....لیکن مجھ سے بہتر گھر نہ ملے گا آپ کو
مغربی پاکستان میں۔“
اسی طرح سنتو جمعدارنی کے جانے پر بی بی نے سوچاتھا۔ ہم سے بہتر گھر کہاںملے گا
کلموہی کو۔
اسی طرح خورشید کے چلے جانے پر وہ دل کو سمجھاتی تھی کہ اس بد بخت کو اس سے اچھا
گھر کہاں ملے گا اور ساتھ ساتھ بی بی یہ بھی جانتی تھی کہ اس سے بہتے گھر چاہے نہ
ملے وہ لوٹ کر آنے والیوں میں سے نہیں تھیں۔ اتنے برس گزرنے کے بعد آپ ایک پل تعمیر
ہو گیا۔ آپی آپ ماضی سے جوڑنے والا۔ وہ دل برداشتہ انار کلی چلی گئی.... اس کا خیال
تھا کہ وہ چار گھٹنے کی غیر موجودگی میں سب کچھ ٹھیک کردے گی۔ سنتو جمعدارنی اور
خورشید تک کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔
لیکن ہوا یوں کہ جب وہ اپنے اکلوتے دس روپے کے نوٹ کو ہاتھ میں لیے بانو بازار میں
کھڑ ی تھی اور سامنے ربڑ کی چپلوں والے سے بھاؤ کر رہی تھی اور نہ چپلوں والے
پونے تین سے نیچے اترتا تھا اور نہ وہ ڈھائی روپے سے اوپر چڑھتی تھی، عین اس وقت
ایک سیاہ کار اس کے پاس آکر رکی۔
|